ٹرمپ کی شکست سے اقتدار کی پرامن منتقلی کا ’یقین نہیں‘: جو بائیڈن

امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو مارچ میں دیے گئے اس بیان کے باعث سنجیدگی سے لینا چاہیے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں نومبر میں شکست ہوئی تو امریکی کار انڈسٹری اور ملک کے لیے ’خونریزی‘ ہوگی۔

امریکی صدر جو بائیڈن دو اگست 2024 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان میں موجود (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے صدارتی انتخابات ہار جاتے ہیں تو انہیں اس بات کا ’بالکل بھی یقین نہیں‘ ہے کہ اقتدار کی پرامن منتقلی ہوگی۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مارچ میں دیے گئے اس بیان کے باعث سنجیدگی سے لینا چاہیے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں نومبر میں شکست ہوئی تو امریکی کار انڈسٹری اور ملک کے لیے ’خونریزی‘ ہوگی۔

وائٹ ہاؤس نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ سابق صدر تشدد کو ہوا دے رہے ہیں، جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی انتخابی مہم کو باضابطہ طور پر روکنے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی باگ ڈور کملا ہیرس کو سونپنے کے بعد جو بائیڈن نے سی بی ایس نیوز کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں یہ بات کہی۔

اقتدار کی پرامن منتقلی کے بارے میں پوچھے جانے پر امریکی صدر نے جواب دیا: ’اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں۔ نہیں، مجھے بالکل بھی یقین نہیں ہے۔‘

صدر نے فوری طور پر اپنا جواب درست کرتے ہوئے کہا: ’میرا مطلب ہے، اگر ٹرمپ ہار جاتے ہیں تو مجھے بالکل بھی یقین نہیں ہے۔

’وہ جو کہتے ہیں، کرتے ہیں۔ ہم انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس حوالے سے باتیں کہ ’اگر ہم ہار گئے تو خونریزی ہوگی‘ کے متعلق تمام چیزیں۔ (انتخابات) چوری ہوں گے، دیکھیں وہ اب مقامی انتخابی اضلاع میں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’آپ اپنے ملک سے صرف اسی وقت محبت نہیں کر سکتے، جب آپ جیت جاتے ہیں۔‘

صدر بائیڈن کا سی بی ایس کو دیا گیا مکمل انٹرویو اتوار کو نشر ہوگا۔

چھ جنوری 2021 کو جو بائیڈن کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے سے صرف تین ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں ہزاروں حامیوں سے خطاب کیا تھا۔

بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ انتخابات کو ’کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ان سے چرائے گئے تھے۔ انہوں نے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے نائب صدر مائیک پینس سے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس کے بعد سابق صدر کے حامیوں نے امریکی کیپیٹل ہل کی بلڈنگ کی طرف مارچ کیا اور عمارت پر دھاوا بول دیا، جس کا مقصد کانگریس کے مشترکہ اجلاس کو جو بائیڈن کی جیت کو باضابطہ شکل دینے کے لیے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی سے روکنا تھا۔

بغاوت کے 36 گھنٹوں کے اندر پانچ افراد مارے گئے۔ ایک کو کیپیٹل ہل کی پولیس نے گولی مار دی، دوسرے کی موت منشیات کے زیادہ استعمال سے ہوئی اور تین کی طبعی موت ہوئی، جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔ متعدد افراد زخمی ہوئے، جن میں 174 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ کیپیٹل ہل پر حملے کے بعد سے 42 ماہ کے دوران تقریباً تمام 50 ریاستوں میں 1470 سے زائد افراد پر خلاف ورزی سے متعلق جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں 530 سے زائد افراد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ