اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیكٹرانک میڈیا پر جرائم سے متعلق قانون میں ترمیمی آرڈیننس (پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022) کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جمعے كو اسلام آباد ہائی كورٹ كے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت كی اور فیصلہ محفوظ كر لیا تھا جو بعد ازاں سنایا گیا۔
یاد رہے كہ تحریک انصاف كی وفاقی حكومت نے اس سال فروری میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں ایک صدارتی آرڈیننس كے ذریعے ترمیم كی تھی جس كے تحت فوج اور عدلیہ سمیت دوسرے سركاری محكموں كے اہلكاروں كی آن لائن 'ہتک عزت' کو سخت سزاؤں کے ساتھ ایک مجرمانہ جرم قرار دیا گیا۔
اس قانون كے تحت سینئیر صحافی محسن بیگ كی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔
پیكا ترمیمی آرڈیننس 2022 كے نفاذ كے خلاف ملک میں صحافیوں كی نمائندہ تنظیم پاكستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور دوسروں نے اسلام آباد ہائی كورٹ میں درخواستیں داخل كی تھیں۔
جمعے كو پیكا ترمیمی آرڈیننس 2022 كے خلاف درخواستوں پر سماعت كے دوران ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور انہی كو پامال بھی کیا گیا۔
انہوں نے ایف آئی اے كے حكام كو مخاطب كرتے ہوئے كہا: 'آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی، اور وہ سیکشنز لگائے جو لگتے ہی نہیں تھے، وہ سیکشنز صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے۔'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا كہ اس سب سے كیسے بچا جا سكتا ہے۔
اس پر جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے، اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت كیا، ’كیا کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا گیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپا مارا گیا۔‘
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ وہ بعض اوقات ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری كر لیتے ہیں، اور پھر برآمدگی پر مقدمہ درج كیا جاتا ہے۔
اس پر چیف جسٹص اطہر من اللہ نے پوچھا: 'آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں كسی كو؟ کس قانون کے مطابق گرفتار کرسکتے ہیں؟'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس موقع پر ریمارکس دیے، ’ادارہ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دیے جا رہے ہیں، کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے؟ ‘
چیف جسٹس اطہرمن اللہ ملک میں صحافیوں کی مبینہ نگرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے كہا: 'یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟'
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت كو بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے پوچھا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، ان كے خلاف کارروائی کیسے بنتی ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ پاكستان میں کتنی مرتبہ مارشل لا لگایا گیا، یہ ملک كی تاریخ ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پیکا ترمیمی آرڈیننس پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جو نماز جمعہ كے بعد سناتے ہوئے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا گیا۔
’پورے ملک کی جیت‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری کا کہنا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے آج جو مختصر آرڈر آیا ہے وہ ایک ’تاریخی رولنگ‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں نہ صرف پیکا کی ترمیمی آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کیا گیا ہے بلکہ اصلی ایکٹ جو پچھلی حکومت نے مسلط کیا تھا اس کے سیکشن 20 کے حوالے سے بھی بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
’سیکشن 20 کو کافی حد تک واٹر ڈاؤن(معتدل) بھی کیا ہے اس کے غلط استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔ عدالت کی طرف سے صاف کہا گیا ہے کہ جو گرفتاریاں اور قید ہوتی ہے وہ ایک منفی اثر پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے سزا ختم کردی ہے۔‘
ایمان مزاری نے یہ بھی کیا ہے ہتک عزت باعث بدنامی ہوتی ہے اس کو سیکشن 20 سے نکالا اور غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
’یہ پورے ملک اور تمام لوگوں کی، ان تمام انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور صحافیوں کی جیت ہے جنوں نے پچھلے سالوں سے اتحاد کا مظاہرہ کیا جب سے پیکا آیا ہے۔ یہ جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے لیے ایک بہت اہم فیصلہ ہے۔‘
فیصلے میں کیا کہا گیا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت تمام کارروائیاں کالعدم قرار دی جاتی ہیں اور اس آرڈیننس سے متاثرہ افراد متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 19 شہریوں کو حق آزادی اظہار رائے دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 19 اے شہریوں کو انفارمیشن تک رسائی کا حق دیتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سے توقع کی جا رہی ہے کہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لیں، جس میں خاص طور پر ہتک عزت آرڈیننس، 2002 شامل ہے، اس لیے پارلیمان سے اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی تجاویز لیں۔
کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) آرڈیننس 2022 آئین اور آرٹیکلز 9، 14، 19 اور 19-A۔ میں دیے گئے بنیادی حقوق کی تضحیک ہے۔
فیصلے میں کہا گیا،’ ہتک عزت کا جرم، انفرادی ساکھ کی حفاظت، گرفتاری اور قید کے نتیجے میں پڑنے والے اثرات سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘