پاکستانی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی بھرمار

چینی اشیا کئی برسوں سے پاکستانی مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے عام آدمی خوش ہے کہ اسے سستی اور معیاری پروڈکٹس مل رہی ہیں تاہم مقامی صنعتیں اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔

19 اپریل 2023 کو کراچی میں خواتین خریداری کے دوران بازار میں جوتے دیکھ رہی ہیں (آصف حسن / اے ایف پی)

آج کل پاکستانی مارکیٹ میں چینی مصنوعات کثرت سے دکھائی دینے لگی ہیں۔ اگرچہ چینی اشیا کئی سالوں سے پاکستانی مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن اب ان کی تعداد اور اقسام میں زیادہ اضافہ دکھائی دے رہا ہے، جس سے عام آدمی خوش ہے اور اس خوشی کی وجہ ہے کہ اسے سستی اور معیاری پروڈکٹس مل رہی ہیں۔

لیکن پاکستان میں کاروباری حالات کافی حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس کے عام آدمی اور پاکستانی صنعت پر کیا اثرات ہو رہے ہیں؟ اس حوالے سے انڈیپنڈنٹ اردو نے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔ 

پاکستان بزنس کونسل کے ریسرچ ڈائریکٹر سمیر امیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چینی مصنوعات کی بھرمار سے کتنی چھوٹی صنعتیں بند ہوئیں اس کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ چھوٹی صنعتیں عمومی طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔

ایک اندازے کے مطابق سیالکوٹ، گجرانوالہ اور گجرات کی مقامی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں۔ مقامی جوتے بنانے کی صنعت تقریباً بند ہو چکی ہے۔ اس وقت ہر طرح کا فٹ ویئر چین سے امپورٹ کیا جا رہا ہے اور اپنی مرضی کا لیبل لگا کر بیچا جاتا ہے۔

سٹیشنری مینوفیکچرنگ کی صنعت متاثر ہو چکی ہے۔

’پہلے سٹیشنری مقامی سطح پر تیار کی جاتی تھی لیکن اب وہ صنعت بھی تقریباً ختم ہو رہی ہے اور سٹیشنری کا سامان چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچپن میں بہادر، پیانو اور پکاسو کے جو پین استعمال کرتے تھے وہ بھی اب چین میں بنتے اور ان پر پاکستان کی مہر لگا دی جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں سیل (بیٹریز) بنا کرتے تھے۔ آج ایک بھی برانڈ پاکستانی سیل کا موجود نہیں ہے۔ کھلونوں کی مینوفیکچرنگ کی صنعت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

کھلونے تقریباً 99.9 فیصد چین سے درآمد ہو رہے ہیں۔ گجرانوالہ میں موٹریں بنا کرتی تھیں اور ان کا معیار بھی بہترین تھا۔ اب وہ صنعت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

کیونکہ چین کی موٹریں سستی اور معیاری ہیں۔ چند ماہ قبل پاکستانی ٹائلز کی مارکیٹ بہترین تھی لیکن جب سے چینی ٹائلیں پاکستان آئی ہیں ملک کے بڑے ٹائل برانڈز کی فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں۔ ‘

سمیر امیر کا کہنا تھا کہ ’گھر بنانے کے لیے جو تعمیراتی سامان درکار ہوتا ہے اس میں سے تقریباً 70 فیصد چین سے آتا ہے، جب کہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی سائیکلیں تیار کی جاتی تھیں۔

یہ انڈسٹری بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اب سائیکلیں چین سے آتی ہیں اور پاکستان میں انہیں صرف جوڑا جاتا ہے۔ اب چونکہ چائنا میگا ڈسکاونٹس دے رہا ہے اس لیے آنے والے دنوں میں امپورٹ مزید بڑھے گی۔‘

 لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر کاشف رفیق سے جب پوچھا گیا کہ کونسی نئی چیزیں پاکستان چین سے منگوا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کون سی چیز ہے جو چین سے نہیں منگوائی جاتی۔ سوئی سے لے کر جہاز تک ہر چیز چین سے آتی ہے، لیکن اب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ اب تو سبزیاں بھی چین سے آ رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں چینی درآمدات ایک نعمت ہیں۔‘

ان کا خیال تھا کہ اگر چین نہ ہوتا تو پاکستان میں مہنگائی عروج پر ہوتی کیونکہ یہاں بجلی اتنی مہنگی ہے کہ یہاں بننے والی مصنوعات عوام کی پہنچ سے دور ہوتیں۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان 24 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور چین اتنی بڑی مارکیٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

عمومی طور پر چینی پاکستان مال بیچنے نہیں آتے بلکہ پاکستانی چین جاتے ہیں اور اپنی مرضی اور ضرورت کا مال خریدتے ہیں، لیکن آج کل چین کے گروپس پاکستان آ رہے ہیں اور مختلف مصنوعات کی ضرورت سے متعلق مارکیٹ سروے کر رہے ہیں۔

ان میں سرفہرست کاسمیٹکس بنانے والی کمپنیاں ہیں۔ اس وقت بھی چینی کاسمیٹکس مختلف ناموں سے فروخت ہو رہی ہیں لیکن آنے والے دنوں میں پاکستانی مارکیٹ چائنیز کاسمیٹکس سے بھر جائے گی اورمقامی کاسمٹیکس انڈسٹری متاثر ہو سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈٹ اردو کو بتایا کہ ’چینی مصنوعات کی بھرمار کی ایک وجہ منی لانڈرنگ بھی ہے۔

’چین پاکستان کو تقریباً 18 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے جبکہ پاکستانی ریکارڈ کے مطابق پاکستان چین سے 12 ارب ڈالرز کی مصنوعات امپورٹ کرتا ہے۔ پانچ ارب ڈالر منی لانڈرنگ اور انڈر انوائسنگ میں چلا جاتا ہے۔ سرکار سب جانتی ہے لیکن خاموش ہے۔‘

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان چین سے سب سے زیادہ الیکٹرانکس درآمد کرتا ہے جس کی مالیت تقریباً تین ارب ڈالر ہے اور اس میں ہر گزرتے ماہ کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

’حالیہ دنوں میں زیادہ درآمدات سولر پلیٹوں اور انورٹرز کی بھی ہوئی ہے۔ پہلے چین کی سولر پلیٹیں یورپ جاتی تھیں لیکن وہاں ٹیکنالوجی بہتر ہونے اور سولر پینلز کی زیادہ پیداوار ہونے کی وجہ سے پرانا مال پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’حکومت مقامی صنعت کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر رہی بلکہ زیادہ توجہ پاکستان چین تعلقات مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چین میں پیدا ہونے والے حالات کا مثبت فائدہ اٹھائے اور اس طرح کی چیزیں درآمد کرے جن سے برآمدات بڑھیں۔ سولر پینلز امپورٹ کرنے کے بجائے پاکستان میں بنائے جانا چاہیے۔

’اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر کی مشینری مہنگی ہے اور پاکستانی ٹیکسٹائل مشینری  کو جدت کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں ٹیکسٹائل کی ٹیکنالوجی منگوائی جانا چاہیےتا کہ برآمدات میں اضافہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کو سعودی عرب ماڈل اپنانا چاہیے۔ سعودی نے چین سے سامان درآمد کرنے کی بجائے چینی کمپنیوں کو ملک میں فیکٹریاں لگانے کی دعوت دی ہے اور خصوصی سہولتیں بھی دیں۔

’پاکستانی سرکار کو چاہیے کہ وہ بھی چینی کمپنیوں کو فیکٹریاں لگانے کی سپیشل سہولتیں دے لیکن وہی سہولت مقامی مینوفیکچرر کو بھی دی جانی چاہیے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو چین سے فنشڈ گڈز منگوانے پر پابندی لگائے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ