شامی ذرائع نے امریکی ٹی وی چینل سی این این کو بتایا ہے کہ ’صدر بشار الاسد دارالحکومت دمشق میں کہیں نہیں ہیں۔‘ تاہم شام کے صدر کے دفتر کے مطابق وہ دارالحکومت سے نہیں نکلے ہیں۔
امریکی حکام نے سی این این کو بتایا کہ صدر بشارالاسد کی حکومت دنوں میں گر سکتی ہے۔
سی این این کے مطابق دمشق کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ شہر ’تناؤ اور خوف و ہراس کی حال‘ میں ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی شام میں حکومت مخالف فوسز کے دارالحکومت پر ممکنہ قبضے کے پیش نظر دمشق میں اس وقت خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے اور رہائشی خورد و نوش کے علاوہ دوسرا ضروری سامان ذخیرہ کر رہے ہیں۔
صدر بشارالاسد کی مخالف فورسز تریزی سے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی ہیں اور کسی بھی وقت دمشق پر قبضہ کر سکتی ہیں۔
حکومت مخالف فورسز کی پیش قدمی کی اطلاعات ارد گرد کے علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہیں۔
دمشق کی رہائشی رانیا، جو اپنے حمل کے آٹھویں مہینے میں ہیں، نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کہیں بھی اشد ضرورت کی دوا نہیں ملی کیونکہ دکانیں اور فارمیسی جلد بند ہو گئی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں اپنے لیے اور اپنی پیدا ہونے والی بچی کے لیے بہت خوفزدہ ہوں۔
’میں آج صبح سے دوا خریدنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھے وہ نہیں مل رہی جس کی مجھے ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’جب میں آج صبح اپنے گھر سے نکلی تو صورت حال ایسی نہیں تھی... اچانک سب خوفزدہ ہو گئے ہیں۔‘
حکومت مخالف فورسز نے ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ انہوں نے قریبی قصبوں پر قبضہ کرنے کے بعد حکومت کے زیر قبضہ دارالحکومت کو گھیرے میں لینے کے لیے کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
شام کی وزارت دفاع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ فوج شہر کے قریب سے نکل گئی ہے۔
رہائشیوں نے خوف و ہراس کی حالت میں اے ایف پی سے بات کی کیونکہ وسطی دمشق میں ٹریفک جام ہو گیا تھا اور لوگ سامان کی تلاش میں تھے اور اے ٹی ایم مشینوں سے رقم نکالنے کے لیے قطار وں میں کھڑے تھے۔
تین رہائشیوں نے، جنہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کہا کہ دکانیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں خوراک یا دوائیاں تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کی افواہوں نے تشویش میں اضافہ کیا، حالانکہ ان کے دفتر نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ وہ ابھی تک دمشق میں ہیں۔
اسد آخری بار اتوار کو ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے سرکاری دورے کے دوران عوام کے سامنے نظر آئے تھے۔
اس سے قبل
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام میں حکومت مخالف فورسز کی ہفتے کو اہم شہر حمص پر کنٹرول کے لیے حکومتی فورسز سے لڑائی اور دارالحکومت دمشق کی طرف پیش قدمی نے صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
دوسری طرف روس، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے ایک ملاقات میں شام کی علاقائی سالمیت کی اہمیت اور سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے تاہم کسی ٹھوس اقدام کی اطلاع نہیں ملی۔
ایک ہفتہ قبل حلب میں حکومت مخالف فوسز کے حملے کے بعد سے حکومتی دفاعی نظام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیونکہ اپوزیشن فورسز نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ان جگہوں پر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں جہاں بغاوت طویل عرصے سے ختم ہو رہی تھی۔
حمص اور دارالحکومت دمشق کے موجودہ حالات شام میں صدر اسد کی دہائیوں کی حکمرانی اور اس کے اہم علاقائی حمایتی ایران کے وہاں مسلسل اثر و رسوخ کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
حمص کے ایک رہائشی، فوج اور اپوزیشن ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اپوزیشن فورسز نے شہر کے شمال اور مشرق سے سرکاری دفاع پر حملے کیے ہیں۔
ایک اپوزیشن کمانڈر نے کہا کہ انہوں نے ایک فوجی کیمپ اور شہر سے باہر دیہات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ادھر سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ اپوزیشن فورسز حمص میں داخل نہیں ہوئیں۔ حالانکہ اپوزیشن فورسز کا کہنا ہے کہ وہ شہر کے مضافات میں ہیں۔
باغیوں نے 24 گھنٹوں کے اندر ملک کے تقریباً پورے جنوب مغرب پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ دمشق کے 30 کلومیٹر (20 میل) کے اندر پہنچ چکے ہیں، جب کہ حکومتی فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔
دارالحکومت دمشق میں بغاوت کے امکان کو ظاہر کرتے ہوئے مظاہرین شہر کے کئی مضافات میں سڑکوں پر نکل آئے اور صدر اسد کے پوسٹرز کو پھاڑا اور ان کے والد اور سابق صدر حافظ الاسد کے مجسمے کو نقصان پہنچایا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ صدر اسد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ فوج نے کہا ہے کہ وہ دارالحکومت اور جنوب کے ارد گرد مزاحمت کر رہی ہے۔
شام میں واقعات کی رفتار نے عرب دارالحکومتوں کو دنگ کر دیا ہے اور علاقائی عدم استحکام کی نئی لہر کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
بشار الاسد نے طویل عرصے سے روسی جنگی طیاروں کی بمباری کے ساتھ اپوزیشن فورسز کو زیر کرنے کے لیے اتحادیوں پر انحصار کیا تھا، جب کہ ایران نے شامی فوج کو تقویت دینے اور حکومت کے مخالفین کے ٹھکانوں پر حملے کرنے کے لیے لبنان کی حزب اللہ اور عراقی ملیشیا سمیت اتحادی افواج بھیجی تھیں۔
روس 2022 سے یوکرین کی جنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور حزب اللہ کو اسرائیلی جارحیت سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس سے صدر اسد کو ممکنہ مدد ملنے کی امید کم ہے۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کو تنازعے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اسے ’اسے ختم ہونے دینا چاہیے۔‘
روس، ایران، ترکی
روس، ایران اور شامی حکومت کی مخالف فورسز کے اہم حمایتی ترکی کے وزرائے خارجہ نے آج ایک ملاقات میں شام کی علاقائی سالمیت کی اہمیت اور سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ کسی ٹھوس اقدامات پر متفق ہوں، جب کہ شام کے اندر کی صورتحال ہر گھنٹے کے ساتھ بدل رہی ہے۔
شام میں روس کا ایک بحری اور ہوائی اڈہ ہے جو نہ صرف صدر اسد کی حمایت کے لیے اہم رہے ہیں، بلکہ بحیرہ روم اور افریقہ میں اثر و رسوخ کے لیے بھی اہم ہیں۔
ماسکو حکومتی فورسز کو شدید فضائی حملوں میں مدد فراہم کرتا رہا ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا وہ اس مہم کو آسانی سے بڑھا سکتا ہے۔
ایران نے کہا ہے کہ وہ شام میں افواج بھیجنے پر غور کرے گا، لیکن کسی بھی فوری اضافی امداد کا انحصار حزب اللہ اور عراقی ملیشیا پر ہو گا۔
مغربی حکام نے کہا کہ لبنانی گروپ نے جمعے کو حمص میں کچھ ’نگران فورسز‘ بھیجیں لیکن کسی بھی اہم تعیناتی سے اسرائیلی فضائی حملوں کا خطرہ ہو گا۔
ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا ہائی الرٹ پر ہیں، ہزاروں بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجو شام میں تعینات کرنے کے لیے تیار ہیں، جن میں سے اکثر سرحد کے قریب جمع ہیں۔
ایک حکومتی ترجمان نے جمعے کو کہا کہ عراق شام میں فوجی مداخلت کا خواہاں نہیں۔
ادھر برطانیہ نے صدر اسد کو خبردار کیا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ایک سرخ لکیر ہے اور اس کے خلاف ’مناسب کارروائی‘ کی جائے گی۔
حمص کے لیے جنگ
حمص کے ایک رہائشی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس نے باغیوں کو شہر کے شمال میں شامی فضائیہ کے ایک اڈے سے آگے بڑھتے دیکھا ہے جو ایک بڑا دفاعی علاقہ سمجھا جاتا تھا۔
رہائشی نے بعد میں کہا کہ شہر کے مضافات میں لڑائی سنائی دے رہی تھی۔ باغیوں کی کمان کے ساتھ رابطے میں اپوزیشن کی ایک شخصیت اور شامی فوج کے ایک ذریعے نے یہ بھی کہا کہ باغی شہر کے اندر ہیں۔
حمص پر قبضہ کرنا، جو دارالحکومت اور بحیرہ روم کے درمیان ایک اہم سنگم ہے، دمشق کو صدر اسد کے ساحلی گڑھ اور روس کے فضائی اور بحری اڈے سے منقطع کر دے گا۔
جنوب میں حکومتی کنٹرول کے تیزی سے کم ہونے سے دارالحکومت دمشق پر فیصلہ کن حملے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
شامی فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ شامی فوج دوبارہ منظم ہونے کے لیے دمشق سے 30 کلومیٹر دور ساسا تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔
عراقی سرحدی قصبے القائم کے میئر نے کہا کہ مشرق میں حکومتی افواج کے خاتمے کی علامت میں، تقریباً دو ہزار شامی فوجی پناہ گاہ کی تلاش کے لیے سرحد عبور کر کے عراق میں داخل ہوئے۔
شامی کرد جنگجوؤں نے جمعے کو مشرقی دیر الزور پر قبضہ کر لیا تھا، جس سے صدر اسد کا عراق میں اتحادیوں سے زمینی رابطہ خطرے میں پڑ گیا تھا۔