یہ شامیوں کے لیے بے پناہ امیدوں کا وقت ہے۔ بہت سے لوگ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے پر جشن منا رہے ہیں اور خوشیاں مناتے رہیں گے۔
وہ سکون کے گہرے احساس کے ساتھ اپنی خوشی کے حقدار ہیں۔ لاکھوں افراد یا تو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑتے ہوئے یا اس کے دفاع کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے، دونوں اطراف کے لوگ ایک شخص کے اقتدار کے نشے سے ناقابل تلافی طور پر متاثر ہوئے۔
لاکھوں اچھے لوگ اپنے گھر کھو بیٹھے یا جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے، اپنے اہل خانہ سے الگ ہو گئے اور واپس آنے سے ڈرتے تھے۔ جب صیدنایا میں جیل کے دروازے کھولے گئے اور ہزاروں شامی سورج کی روشنی میں باہر نکلے – جن میں سے بہت سے لوگوں کو طویل عرصے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مردہ سمجھا جاتا تھا – تو یہ ملک کی نئی زندگی کی علامت تھی۔
لیکن بہت سے شامی، یہاں تک کہ حکومت کے وفاداروں کے کمزور ہوتے دائرے سے باہر بھی، اس بارے میں فکرمند ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔
میدان جنگ میں، شام کی خانہ جنگی ہیئت تحریر الشام کے زیر تسلط حکومت مخالف گروپوں کی ایک صف نے جیتی ہے۔ یہ گروپ ان دھڑوں کا اتحاد ہے جو قدامت پسند سے لے کر انتہائی قدامت پسند تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہیئت تحریر الشام کو ایک دہائی قبل جبہت النصرہ کے نام سے تشکیل دیا گیا تھا، جو شمالی شام میں ابھرنے والی بہت سی ملیشیاؤں میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں درجنوں نئی تنظیمیں تھیں، جو اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دینے کے لیے مقابلہ کر رہی تھیں۔
شامی شہری ان نئے جنگجوؤں کے بارے میں مذاق کرتے تھے کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں لمبی کر رہے ہیں تاکہ ان کی بریگیڈ کی تشکیل کی ویڈیوز میں زیادہ اصلی دکھائی دیں۔ ان ویڈیوز کو یوٹیوب پر اس امید کے ساتھ اپ لوڈ کیا جاتا تھا کہ بیرون ملک سے قدامت پسند سرپرستوں سے فنڈز حاصل کی جا سکیں۔
ان گروہوں میں، جبہت النصرہ ہمیشہ سب سے مضبوط تھا۔ اس کے باوجود، اگر اس وقت کسی نے یہ مشورہ دیا ہوتا کہ وہ 50 سالہ بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹ دے گا، تو اس پر ہنسی آ جاتی۔
لیکن ہم وہ انقلاب نہیں دیکھ رہے جو 2011 میں شروع ہوا تھا۔ پیچ و خم اور تبدیلیوں نے میدان میں کھلاڑیوں کو پختہ کر دیا ہے۔
ہیئت تحریر الشام نے اپنا لہجہ نرم کیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنے اصل تعلقات سے انکار کیا، لیکن اس کی جڑیں اب بھی آمرانہ ماڈل میں پیوست ہیں۔ اس نے ادلب میں ایک حقیقی علاقائی حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس تنظیم کے پاس متعدد آمدنی کے ذرائع ہیں اور مختلف شدت پسند گروپوں کے اتحاد کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے تاکہ ایک بڑی لڑاکا فورس تشکیل دی جا سکے۔
پہلے سے ہی سماجی قدامت پسندی کا گڑھ، ادلب کو اس کے وژن کے مطابق از سر نو تشکیل دیا گیا تھا۔ اب وہاں کے بچوں کو صنفی طور پر الگ تھلگ سکولوں میں ایک اسلامی نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
ہیئت تحریر الشام پورے شام کو کنٹرول نہیں کرتی، لیکن اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ شام کے اہم راستوں اور وسیع علاقوں پر کنٹرول حاصل کر سکتی ہے۔ اس نے بشار الاسد کی حکومت کے زوال کا سہرا اپنے سر باندھنے کے ساتھ ساتھ تنظیم کو مستقبل کی حکومت میں نتائج اور پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی صلاحیت دی ہے۔
پرامید ہونے اور مستقبل کی ریاست کی تعمیر کے لیے امید افزا اجزا دیکھنے کی وجوہات موجود ہیں - یہ موقع صرف بشار الاسد کے انخلا سے ہی ممکن ہوا ہے۔
فوج اور انٹیلی جنس سروسز سے باہر ریاستی بیوروکریسی اتنی مضبوط ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکے۔ باصلاحیت شامی ٹیکنوکریٹس کو رہنے یا واپس آنے کے لیے قائل کیا جاسکتا ہے۔
خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے بیرون ملک رہنے اور تعلیم حاصل کرنے والے شامیوں کی ایک نسل اپنا ہنر وطن واپس لا سکتی ہے۔ انہیں بس اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ملک کی تشکیل ہیئت تحریر الشام کر رہی ہے، جو سیاسی اسلام کی پرعزم چیمپیئن ہے، وہ ایک ایسا ملک ہوگا جس میں ان کی ترقی کی گنجائش ہوگی۔
اس کے ابتدائی بیانات نے خواتین کو ان کی آزادی کی یقین دہانی کروائی ہے اور بیرون ملک مقیم شامیوں کی واپسی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب، شامی عوام کو ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے – ایک اقتصادی-سیاسی معاہدہ جو ملک کو متحد کر سکے۔
گذشتہ 13 برسوں میں شامیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس افراتفری کے دور میں ترقی کرنے کے لیے عملیت پسندی اور مطابقت پذیری ہے۔
وائٹ ہیلمٹس اور لوکل کوآرڈینیشن کمیٹیز جیسے نئے ادارے سول سوسائٹی کے اقدامات سے ابھرے ہیں تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیاں کی جا سکیں، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کیے جا سکیں اور ایسے علاقوں میں کچرے کو جمع کرنے کا انتظام کیا جا سکے جہاں کوئی باضابطہ حکومت نہیں ہے۔
شامی تارکین وطن کے حمایت یافتہ ہائبرڈ خیراتی اداروں نے طبی دیکھ بھال فراہم کی ہے، جبکہ جوسور، کرم فاؤنڈیشن اور سیرین یوتھ امپاورمنٹ جیسے دیگر اداروں نے تعلیمی پروگرام بنائے ہیں، جن کے نتیجے میں شامی پیشہ ور افراد کے وسیع اور متنوع نیٹ ورک سامنے آئے ہیں۔
جو کچھ ایک دہائی سے زائد عرصے کی جنگ کے دوران ایمرجنسی ردعمل کے طریقہ کار کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ ملک کے لیے اتفاق رائے اور مشترکہ وژن تلاش کرنے کے لیے ایک نقشہ بن گیا ہے۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد، شامی شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کو اپنی نئی شکل ملنے کے ساتھ ہی مستقبل قریب کے خطرات شدید ہیں۔ امریکی ڈالر اور زیادہ تر ترک لیرا عام طور پر استعمال ہونے والی کرنسی بن گئے ہیں۔
عبوری انصاف کے منصوبوں پر برسوں سے کام ہو رہا ہے، لیکن اب جب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے، تو یہ دہائیوں سے جاری حکومتی جرائم، بدعنوانی اور بدسلوکی کے احتساب کی حدود کا امتحان لے گا۔
ایک خصوصی ٹربیونل کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس دوران شامیوں کو ذاتی انتقام کی طرف کسی بھی طرح کے جذبات کو روکنا پڑے گا۔
شامیوں کو ایک ایسے ملک کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا جو سماجی و اقتصادی ڈپریشن، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور منشیات کے غلط استعمال کا شکار ہے۔ ان کو متحرک کرنے کے لیے تفصیلی منصوبے بنانے ہوں گے اور اگر ہزاروں شامی عسکریت پسندوں کو باضابطہ ریاستی ڈھانچے میں ضم نہ کیا گیا تو انہیں روزگار کے متبادل ذرائع فراہم کرنے ہوں گے۔
بالخصوص جسمانی خطرے کے حوالے سے، انہیں شدت پسندوں کے اندرونی تنازعات کے خطرے سے نمٹنا ہوگا۔ ایسے جنگجوؤں کی کوئی کمی نہیں ہے، جنہوں نے افراتفری کے حالات سے طاقت اور دولت حاصل کی ہے۔
شام کے جنوب اور شمال میں ایسے عسکریت پسند گروہ موجود ہیں جو ہیئت تحریر الشام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان کے مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں۔
اگر بیرونی طاقتیں مسابقتی گروہوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو وہ پراکسی وار کو ہوا دینے کا خطرہ مول لیں گی، جس سے نقصان شامیوں کا ہوگا، جو پہلے ہی کافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔
کئی دہائیوں تک اس شامی عرب جمہوریہ کو بے رحمی سے کنٹرول کیا گیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ قابو سے باہر نہ ہو۔
امید ہے کہ ہیئت تحریر الشام سمجھوتے اور توازن کی راہ اختیار کرے گی۔ شامیوں کو یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اس توازن کو قائم کریں اور اپنا مستقبل خود سنواریں۔ چاہے اس میں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں۔
(بشکریہ عرب نیوز)
لارا سیتراکیان ایک صحافی اور اپلائیڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اے پی آر آئی) کی صدر ہیں۔ وہ ’نیوز ڈیپلی‘ اور اس کے پلیٹ فارم ’سیریا ڈیپلی‘ کی شریک بانی بھی ہیں۔ اس سے قبل لارا مشرق وسطیٰ میں اے بی سی نیوز اور بلومبرگ ٹیلی ویژن کی رپورٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔