جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے ترجمان نے مدارس رجسٹریشن بل پر صدر کے دستخط نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومت علما اور مدارس بورڈ سے ملاقاتیں کر کے بل پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مختلف علما کا خیال ہے کہ مدارس بل کا معاملہ حکومت اور مولانا کے درمیان تنازعہ نہیں بلکہ کئی دھائیوں قبل بننے والے پانچ بورڈز اور نئے تشکیل کردہ 10 بورڈز کے درمیان کے اختلافات نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبے پر کابینہ اور پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے اعتراض لگا کر اسے واپس پارلیمنٹ بھیج دیا تھا۔
جے یو آئی ف کا مطالبہ ہے کہ معاہدے کے مطابق بل پاس کیا جائے ورنہ احتجاج کا راستہ اپنائیں گے لیکن حکومت کی جانب سے دیگر علما اور مدارس بورڈ کے عہدیداروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
علما نے معاملے کو سیاست کے بجائے افہام و تفہیم سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔
اسلامی نطریاتی کونسل کے سربراہ مفتی راغب نعیمی نے انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن (ڈی جی آر ای) کے تحت مدراس کا نظام بہترین چل رہا ہے۔ جو پرانے مدارس بورڈ پرانے نظام کے تحت چلنا چاہیں انہیں اجازت دی جائے جو نئے نظام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں وہ اس کے تحت چلائے جاسکتے ہیں۔ یہ لڑائی مولانا یا حکومت کی نہیں بلکہ 1860سوسائٹی ایکٹ کے تحت کام کرنے والے پانچ مدارس بورڈ اور اس کے بعد قائم ہونے والے 10 نئے مدارس بورڈ کا تنازع ہے۔‘
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مدارس کو کسی بیرونی طاقت سے خطرہ نہیں، نئے نظام کے تحت مدارس چلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے مدارس رجسٹریشن بل سے متعلق سیاست برداشت نہیں کریں گے۔ تمام مدراس بورڈ یکساں اہمیت کے حامل ہیں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی۔‘
ترجمان جے یو آئی ف اسلم غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مدارس رجسٹریشن بل پہلے کابینہ پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکمران جماعتوں نے خود پاس کرائے اب صدر کا اعتراض بلا جواز ہے۔ حکومت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے معاملہ حل کرنے کی بجائے متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ اس معاملہ پر ہمارا موقف واضح ہے کہ جو طے ہوا ہے اس پر عمل کریں ورنہ چند روز میں آئیندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔‘
مدارس بل پر تنازع کیا ہے؟
اسلامی نطریاتی کونسل کے سربراہ مفتی راغب نعیمی کے بقول: ’دینی مدارس سوسائٹی ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں جو وزارتِ صنعت کے ماتحت کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں مدارس کا نظام چلانے کے لیے بھی پانچ مدارس بورڈ کام کرتے رہیں ہیں۔ لیکن 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت نے اتحاد تنظیمات مدارس سے مذاکرات کے بعد 29 اگست 2019 کو ایک معاہدہ کیا جس کے تحت مدارس کو وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے تحت رجسٹرڈ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ حکومت نے اس ضمن میں ڈی جی آر ای کا الگ فورم بھی تشکیل دیا۔ ہمارا مدرسہ جامعہ نعیمیہ بھی اسی فورم پر رجسٹرڈ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مفتی راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے مدراس کی تعداد میں اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے 10 نئے مدارس بورڈ بھی تشکیل دے دیے پانچ پہلے سے کام کر رہے تھے۔ اس طرح نئے نظام کے تحت رجسٹریشن پر تو اتفاق ہوگیا لیکن پرانے بورڈز نے نئے بننے والے بورڈز کو تسلیم نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مدارس بل میں پرانے نظام کے تحت مدارس چلانے کی کوشش کی گئی تاکہ نئے بورڈز کو وہ مقام نہ مل سکے جو پہلے سے موجود بورڈز کو حاصل ہے۔‘
سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بقول: ’عمران حکومت میں یہ بھی طے پایا کہ معاہدے کے تحت وہ مدارس اور جامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔ اسی وزارت کے تحت تمام رجسٹرڈ مدارس کو شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم معاونت کرے گی۔
’ایک اور اہم مسئلہ جس کا سامنا دینی مدارس کو تھا، وہ غیر ملکی طلبہ سے متعلق تھا۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہ ان رجسٹرڈ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کے لیے تعلیمی ویزا دے گی۔ ایک شق مدارس میں عصری تعلیم (میٹرک، ایف اے وغیرہ) کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بھی تھی۔
’اس مدارس رجسٹریشن بل پر پانچوں تنظیموں کے ذمہ داران یعنی مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میر، مفتی منیب الرحمٰن، مولانا عبدالمالک نے دستخط کیے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب حکومت نے 26ویں ترمیم پاس کرانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن سے مزاکرات شروع کیے تو مولانا نے ساتھ ہی مدارس رجسٹریشن بل پرانی شکل میں بحال کرنے کا بل منظور کرنے کی شرط رکھ دی جو مان لی گئی تھی۔ اس کے تحت مدارس کو دوبارہ وزارت صنعت وتجارت کے ماتحت کرنے اور غیر ملکی طلبہ کو ویزے جاری کرنے کی شق بھی شامل کر دی گئی ہے۔‘
جےیو آئی کے ترجمان اسلم غوری کے بقول: ’حکومت مدارس بورڈز کے عہدیداروں اور علما کو آپس میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ سب سے زیادہ 40 ہزار کے قریب مدارس پرانے پانچ مدراس بورڈز کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ پھر عمران خان کے دور میں جنرل فیض حمید نے مدارس کو تقسیم کرنے کے لیے 10 نئے بورڈ تشکیل دے دیے اور پرانے مدارس میں سے ہی الگ کر کے 10 ہزار کے قریب مدارس کو نئے بورڈز کے ماتحت کردیا گیا۔
’ہم نے پہلے بھی اسے تسلیم نہیں کیا تھا اور اب بھی نہیں کرتے۔‘
اسلم غوری نے کہا کہ ’جب حکومت کو اعتراض تھا تو پہلے ہی یہ بل منظور نہ کیا جاتا اگر اس وقت اعتراض نہیں تھا تو اب کیوں متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں حکومت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے لہذا ہم آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کے لیے ملک کے علما مشائخ کا اجلاس بلائیں گے۔‘
حکومتی موقف
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں بدھ کو ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانونی پچیدگیوں کے باعث ایکٹ نہیں بن سکا ہے، 2018 میں بھی تمام مدارس کو علما کی مشاورت سے قومی دھارے میں لایا گیا تھا۔ ملک کی تمام جامعات وفاقی وزارت تعلیم سے وابستہ ہیں، دینی مدارس کے لیے بھی ایسا ہونا ضروری ہے۔‘
مدارس بل پر مولانا فضل الرحمٰن کے حامی اور دیگر مدارس کتنے ہیں؟
چیئرمین علما کونسل حافظ طاہر اشرفی کے مطابق دنیا کی کوئی طاقت نہ مدارس ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی نصاب تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
’ہمارا بھی حق ہے کہ ہم مدارس سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ملک بھر میں مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پربحث جاری ہے۔ ملک میں کل 15 بورڈز میں سے 10 سےزائد وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کےحق میں ہیں جب کہ ملک میں 18 ہزار سے زائد مدارس وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹر ہوچکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم سے وزارت صنعت کے تحت منتقل کرنےکی کوشش مسترد کرتے ہیں، مدارس کی رجسٹریشن وزارت صنعت کے تحت کرنا ملکی قانون اور وحدت کے خلاف ہے۔ مدارس کی آزادی اور نصاب کے معاملے پرکسی قسم کی مداخلت قبول نہیں۔‘
طاہر اشرفی کے مطابق: ’مولانا فضل الرحمٰن الگ قانون سازی کرانا چاہتے ہیں تو حکومت جانے اور وہ جانیں، ہم تلخیاں نہیں چاہتے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہونا چاہیے۔‘
مفتی راغب نعیمی نے کہا کہ ’ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت مدارس کی معلومات جمع کی ہیں۔ جن کے مطابق ملک بھر میں 39 ہزار مدراس کی کل تعداد بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تعداد پرانے پانچ مدراس بورڈ کی ہے جو مولانا فضل الرحمن کے موقف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جبکہ نئے بننے والے بورڈز کے تحت چلنے والی مدارس کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ لہذا حکومت اور مولانا فضل الرحمٰن کو چاہیے کہ اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے معاملہ افہام وتفہم سے حل کیا جائے ہم کسی تنازعہ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘