1970 اور 1980 کی دہائیوں میں انڈیا میں متوازی سنیما تحریک کی ایک اہم شخصیت کے طور پر شہرت رکھنے والے شیام بینیگل 90 برس کی عمر میں چل بسے۔
ان کی بیٹی پیا نے متعدد انڈین میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ وہ پیر کو فلم نگری ممبئی میں گردے کی دائمی بیماری کے باعث دنیا سے رخصت ہوئے۔
پیا نے کہا: ’انہوں نے پیر کی شام 6.38 بجے ممبئی سینٹرل کے واک ہارٹ ہسپتال میں آخری سانس لی وہ کئی سالوں سے گردے کی دائمی بیماری میں مبتلا تھے لیکن مرض بہت بگڑ چکا تھا۔ یہی ان کی موت کا سبب تھا۔‘
شیام بینیگل کو کلاسیک فلموں جیسے ’انکور‘ (1974)، ’نِشانت‘ (1975)، ’منتھن‘ (1976)، ’منڈی‘ (1983)، اور ’زبیدہ‘ (2001) کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جو سماجی اصلاحات، خواتین کے حقوق اور انڈیا میں سماجی تقسیم جیسے موضوعات کو اجاگر کرتی ہیں۔
18 نیشنل فلم ایوارڈز، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم شری اور پدم بھوشن جیسے سول اعزازات حاصل کرنے والے بینیگل کی انڈین سنیما کے لیے خدمات بے مثال ہیں۔
14 دسمبر 1934 کو انڈیا کی وسطی ریاست آندرا پردیش کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے بینیگل نے فلم سازی میں آنے سے پہلے اشتہارات سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
ان کی پہلی فلم ’انکور‘ نے انہیں الگ پہچان دی جس میں ذات پات کے نظام اور دیہی جاگیرداری کو اجاگر کیا گیا تھا۔
فلم ساز شیام اکثر اپنی فلموں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ’مڈل سنیما‘ کی اصطلاح کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔
انہوں نے 2023 میں ہندوستان ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’مجھے اس اصطلاح سے نفرت ہے. یہ کيا ہے؟ میں یہ کہوں گا کہ میرا سینیما شہری، متوسط طبقے کے پڑھے لکھے ناظرین کو پسند آتا ہے، ہر بات آسانی سے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
فلم سازی کے موضوع پر بینیگل کا موقف واضح تھا یعنی سیاسی موضوع ان کی ہر فلم میں نظر آئی۔ انہوں نے 2022 میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’مجھے یاد نہیں کہ یہ کس نے کہا تھا کہ آپ کا ہر سماجی عمل بھی ایک سیاسی عمل ہوتا ہے، چاہے آپ کو یہ پسند ہو یا نہ ہو۔
’آپ کو کو جتنا ممکن ہو سکے اتنا غیر جانبدار ہونا چاہیے اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمدرد ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ غیر جانبدار نہیں ہیں، تو آپ پہلے ہی کہانی کو اپنی ذاتی رائے سے رنگ رہے ہیں۔ ہمدردی ضروری ہے۔ جب میں ہمدردی کہتا ہوں، تو میرا مطلب ہمدردی نہیں بلکہ ہم آہنگی ہے تاکہ آپ موضوع کے ساتھ ایک ہو سکیں۔‘
انکور، جو برلنالے میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور گولڈن برلن بیئر کے لیے نامزد ہوا، متعدد قومی فلم ایوارڈز جیتی اور اداکارہ شبانہ عظمی کی کیریئر کا آغاز کیا۔
بینیگل کو دیگر کئی مشہور انڈین اداکاروں کی کیریئر کے آغاز اور ترقی کا بھی کریڈٹ دیا جاتا ہے، جن میں سمیتا پٹیل، نصیرالدین شاہ، سعید جعفری اور اوم پوری شامل ہیں۔
ان کی فلم منتھن، جو انڈیا کے سب سے بڑے دودھ کی پیداوار کے پروگرام کے پس منظر میں بنی تھی، دیہی علاقوں کے حقوق کے موضوع پر مرکوز تھی۔ یہ انڈیا کی پہلی ’کراؤڈ فنڈڈ‘ فلم تھی، جو 500,000 کسانوں سے حاصل شدہ فنڈز سے مکمل طور پر تیار کی گئی تھی، جنہوں نے فی کس دو روپے (0.019 پاؤنڈ) عطیہ کیے۔ اس فلم کو نئے سرے سے دوبارہ سے بہتر حالت میں تیار کیا اور اسے 2024 میں کانز فلم فیسٹیول کے کلاسکس حصے میں پیش کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی اگلی فلم بھومیکا (1977) خواتین کے حقوق پر مرکوز تھی۔ اس کے بعد انہوں نے 1979 میں جنون بنائی، جو رسکن بانڈ کے ناول ’اے فلائٹ آف پیجنس‘ پر مبنی تھی اور 1857 میں برطانوی حکمرانی کے خلاف ہندوستانی بغاوت کی کہانی بیان کرتی ہے۔
ان کی دیگر یادگار فلموں میں کالیوگ (1981) شامل ہے، جو انڈین مہابھارت کا جدید دور میں ترتیب دیا گیا ورژن ہے؛ منڈی (1983)، جو ایک طوائف خانہ پر مبنی ایک سٹیرک کامیڈی ہے جو اہم جائداد پر واقع ہے اور سیاستدانوں کی توجہ حاصل کرتی ہے جو اسے منتقل کرنا چاہتے ہیں؛ اور زبیدہ (2001)، جو بدقسمت اداکارہ زبیدہ بیگم کی زندگی پر مبنی ہے، جو ایک شاہی خاندان میں بیاہ کر جاتی ہے۔
بینیگل کی خدمات صرف سینیما تک محدود نہیں ہیں۔ ان کا 53 اقساط پر مشتمل ٹیلی ویژن ڈرامہ ’بھارت ایک کھوج‘ (1988)، جو جواہر لال نہرو کی کتاب ’دا ڈسکوری آف انڈیا‘ پر مبنی تھا، آج بھی برصغیر کی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2014 میں، انہوں نے ’سمبیدھان‘ تخلیق کیا، جو انڈیا کے آئین کی تیاری پر مبنی 10 اقساط پر مشتمل ٹیلی ویژن منی سیریز تھی۔
ان کا آخری کام انڈیا-بنگلہ دیش مشترکہ پروڈکشن مجیب: دی میکنگ آف اے نیشن‘ (2023) تھا، جو شیخ مجیب الرحمٰن کی زندگی پر مبنی ایک بایوپک تھی، جو بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے صدر تھے۔
ان کی وفات سے چند دن پہلے، کئی اداکاروں نے ان کی 90 ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہو کر ان کے ساتھ تصویریں بنوائیں، جن میں شبانہ عظمی نے شاید فلم ساز کی آخری تصاویر میں سے ایک شیئر کی۔ اس تصویر میں عظمی، شاہ، کلبھوشن کھربندا، دیویا دتہ، راجیت کپور، اٹل تیواری اور دیگر افراد شامل ہیں۔
اپنی سالگرہ والے دن پر پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے ساتھ ایک انٹرویو میں بینیگل نے بتایا کہ انہوں نے اپنا دن کس طرح گزارا، اور یہ بھی کہا کہ وہ ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’ہم سب بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے جنم دن پر کچھ خاص نہیں کرتا۔ یہ ایک خاص دن ہو سکتا ہے لیکن میں اسے خاص طور پر نہیں مناتا۔ میں دفتر میں اپنی ٹیم کے ساتھ کیک کاٹتا ہوں۔ میں دو سے تین منصوبوں پر کام کر رہا ہوں؛ یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ میں کون سا بناؤں گا۔ یہ سب بڑی سکرین کے لیے ہیں۔‘
بینیگل کی موت کی خبر پھیلتے ہی انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
معروف بالی وڈ اداکار نصیرالدین شاہ نے اپنے بیان میں، جو ’دی ہندو‘ نے رپورٹ کیا، کہا کہ ’یہ چند الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے کہ شیام بینیگل میرے لیے کیا تھے۔ مجھے حیرت ہے کہ میں کیا بن پاتا اگر انہوں نے مجھ پر اس وقت یقین نہ کیا ہوتا جب اور کسی نے نہیں کیا تھا۔ وہ اور نیرہ (بنگیّل، بیوی) میرے مشکل وقتوں میں بہت بڑی حمایت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کیا، آخر تک کیا۔ بہت کم لوگ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا۔‘
انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا: ’شری شیام بینیگل کے انتقال سے گہرا دکھ ہوا، جن کی کہانی سنانے کی صلاحیت نے انڈین سینما پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے کام کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جانب سے سراہا جاتا رہے گا۔ ان کے خاندان اور مداحوں سے تعزیت۔ اوم شانتی۔‘
فلم ساز شکھر کپور نے لکھا، ’انہوں نے ’ نیو ویو‘ سنیما تخلیق کیا۔ شیام بینیگل کو ہمیشہ اس شخص کے طور پر یاد کیا جائے گا جس نے انکو، منتھن اور بے شمار دیگر فلموں کے ذریعے انڈین سنیما کی سمت بدل دی۔ انہوں نے شابانہ عظمی اور سمیتا پٹیل جیسے عظیم اداکاروں کے ستارے تخلیق کیے۔ الوداع میرے دوست اور رہنما۔‘
انڈیا میں اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی نے ایکس پر پوسٹ کیا، ’شیام بینیگل جی کے انتقال پر گہرا دکھ ہوا، ایک بصیرت رکھنے والے فلم ساز جنہوں نے انڈین کہانیوں کو گہرائی اور حساسیت کے ساتھ زندگی دی۔ سنیما میں ان کی وراثت اور سماجی مسائل کے لیے ان کی لگن آنے والی نسلوں کو متاثر کرے گی۔ ان کے عزیزوں اور مداحوں سے دل کی گہرائیوں سے تعزیت۔‘
© The Independent