ہفتے میں چار دن کام کرنے کے حوالے سے پائلٹ سکیم کے نتائج منگل کو ہاؤس آف کامنز میں برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیے گئے، جس میں مہم چلانے والوں نے قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہر برطانوی ورکر کو ہفتے میں 32 گھنٹے کام کرنے کا موقع دیں۔
اس کی صدارت لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ پیٹر ڈاؤڈ نے کی، جنہوں نے اکتوبر میں 32 گھنٹے ورکنگ ویک بل پیش کیا تھا، جس کے تحت تمام برطانوی کارکنوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ورکنگ ویک 48 گھنٹے سے کم کر کے 32 گھنٹے کر دیا جائے گا۔
پیٹرڈاؤڈ نے ٹویٹ کی کہ پارلیمنٹ میں چار روزہ ورکنگ ویک پائلٹ ٹرائل کی شاندار پریزنٹیشن ہوئی، ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے نتائج اور تجربات پیش کیے اور میرے پارلیمانی ساتھیوں اور دیگر حاضرین کے تمام سوالات اور تعاون کا شکریہ۔
Great presentation of the 4 day working week pilot in Parliament to day, thanks to all who presented findings and experiences and to all the questions and contributions from my parliamentary colleagues and other attendees. https://t.co/VdE6xyBtdS
— Peter Dowd (@Peter_Dowd) February 21, 2023
یہ ٹرائل برطانیہ میں ہوئے، جسے ’بڑی پیش رفت‘ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں شامل زیادہ تر کمپنیوں کا کہنا تھا کہ وہ اس پائلٹ (سکیم) کے بعد ہفتے کو مختصر ہی رکھیں گی۔
برطانیہ کے مختلف شعبوں کی 61 کمپنیوں نے اس تجربے میں گذشتہ سال جون سے چھ ماہ کے لیے تمام عملے کے کام کے اوقات میں 20 فیصد کمی کا وعدہ کیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ فرموں نے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان کے ملازمین کی تنخواہیں کم نہ کی جائیں۔
61 میں سے کم از کم 56 کمپنیوں نے کہا کہ وہ ہفتے میں چار دن کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ 18 کمپنیوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ پالیسی مستقل تبدیلی بن گئی ہے۔
صرف تین کمپنیوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے ادارے کے اندر ہفتے میں چار دن کام کرنے کی پالیسی کو فی الحال روک دیا ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج اور امریکہ کے بوسٹن کالج کے ماہرین تعلیم نے یہ تحقیق کی اور اس ٹرائل کو غیر منافع بخش کمیونٹی ’فور ڈے ویک گلوبل‘ نے تھنک ٹینک ’آٹونامی‘ اور کمپین گروپ ’فور ڈے ویک‘ کے ساتھ مل کر مربوط کیا۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مہم میں حصہ لینے والے تقریباً دو ہزار 900 افراد پر مشتمل عملے میں تناؤ اور بیماری کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
تقریباً 39 فیصد ملازمین نے کہا کہ جب ٹرائل شروع ہوا تو اس کے مقابلے میں وہ کم تناؤ کا شکار ہوئے اور ٹرائل کے دوران بیماری کے باعث چھٹیوں کی تعداد میں تقریباً دو تہائی کمی ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ٹرائل ’بڑی تعداد میں استعفوں‘ کی تحریک کے دوران چلتا رہا، جب ورکرز زیادہ سہولت کی تلاش میں نوکریاں چھوڑ رہے تھے۔ اس کے باوجود امکانات بہت زیادہ تھے کہ لوگ اپنی ملازمتیں نہیں چھوڑیں گے۔
ٹرائل میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت ملازمت چھوڑ کر جانے والے عملے کی تعداد میں 57 فیصد کمی آئی۔
اس سروے کے دوران عملے کے مطابق اضطراب، نیند میں دشواری اور برن آؤٹ میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی، جبکہ عملے کی اکثریت نے بتایا کہ دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کو متوازن کرنا آسان تھا۔
نتائج سے یہ بھی پتہ چلا کہ دوران ٹرائل کمپنی کی آمدنی میں اوسطاً 1.4 فیصد اضافہ ہوا اور 2021 میں اسی چھ ماہ کی مدت کے مقابلے میں بہت زیادہ 35 فیصد اضافہ ہوا۔
تاہم ایک بڑی کمپنی کے متعدد ملازمین نے کام میں اضافے کے متعلق خدشات کی اطلاع دی، انہیں اپنے میں تیزی اور مقررہ وقت میں زیادہ کام کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔
نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کچھ مینیجرز اور عملے نے محسوس کیا کہ کارکردگی پر توجہ کے باعث دفاتر میں سماجی سرگرمیاں یعنی ملنا جلنا کم ہوگیا، جو اس ٹرائل میں شامل تخلیقی کمپنیوں کے لیے ایک تشویش تھی۔
’فور ڈے ویک‘ مہم کے ڈائریکٹر جو رائل کا کہنا ہے کہ یہ ٹرائل اس مہم کے لیے ایک ’اہم پیش رفت کا لمحہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا: ’معیشت کے مختلف شعبوں میں یہ ناقابل یقین نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ تنخواہ میں کمی کے بغیر چار دن کام والا ہفتہ واقعی پُر اثر ہے۔ یقیناً اب وقت آگیا ہے کہ اسے پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختلف صنعتوں کی آرگنائزیشنز نے اس مہم میں حصہ لیا۔ آٹھ کمپنیاں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے تھیں ، اس کے بعد سات پیشہ ورانہ خدمات میں سے تھیں جیسا کہ لیورپول میں ایک ایسٹ مینجمنٹ فرم اور لندن میں ایک انشورنس کمپنی۔
خیراتی اور غیر منافع بخش شعبے کی پانچ فرموں نے بھی اس مہم میں حصہ لیا، جن میں ٹائن اینڈ ویئر میں سٹیزن ایڈوائس ان گیٹس ہیڈ بھی شامل ہے۔
تعلیم، فنانس، ہیلتھ کیئر اور آن لائن ریٹیل سیکٹر کی کمپنیاں بھی اس میں شامل تھیں اور یہاں تک کہ نارفوک میں مچھلی اور چپ کی ایک دکان بھی شامل تھی۔
زیادہ تر فرموں نے اپنے تمام ملازمین کو جمعے کی چھٹی دینے کا انتخاب کیا جبکہ کچھ نے کہا کہ وہ پیر یا جمعہ لے سکتے ہیں اور دیگر نے عملے کے درمیان کسی عام دن کی چھٹی کا انتخاب نہیں کیا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر ڈیوڈ فرین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان نتائج سے بہت حوصلہ افزائی محسوس ہوئی، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنیاں چار روز پر مشتمل ورکنگ ہفتے کو خواب سے حقیقت پسندانہ پالیسی میں تبدیل کر رہی ہیں، جس کے متعدد فوائد ہیں۔‘
محققین نے اصرار کیا کہ ’نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار روز کام والا ہفتہ تجربات سے عمل درآمد تک اگلا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’تنخواہوں میں کمی کے بغیر کام کے مختصر ہفتے کے فوائد اب معروف اور اچھی طرح سے ثابت ہیں۔ اس سے ملازمین خوش اور صحت مند ہوتے ہیں اور جن اداروں کے لیے وہ کام کرتے ہیں ان کی پیداوار اکثر زیادہ ہوتی اور وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اپنے عملے کو چھوڑ کر جانے سے روک سکتے ہیں۔