یورپ میں قدرتی گیس کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے اور کچھ ممالک کی حکومتوں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال موسم سرما میں صارفین کے گیس کے بلوں میں اضافہ ہوجائے گا جبکہ کئی صنعتوں کے بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
نہ صرف یورپ بلکہ گیس کی کم ہوتی رسد اور بڑھتی طلب کے باعث یہ بحران یورپ سے نکل کر عالمی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے خاص طور پر اب جب معیشتیں کرونا وبا سے نکل رہی ہیں، موسم سرما قریب ہے اور سردی کے باعث طلب میں اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔
عالمی کمپنی انٹرکانٹیننٹل ایکسچینج کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے دوران یورپ میں قدرتی گیس کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ برطانیہ میں توانائی کے ریگیولیٹر آفجیم نے تنبیہ کی ہے کہ اگلے سال تک صارفین کے بلوں میں 30 فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی رسہ کشی
روس کی توانائی کمپنی گیزپروم نے تنبیہ دی ہے کہ بڑھتی قیمتیں خطے میں معیشت کو عدم استحکام کی جانب لے جا سکتی ہیں۔
روس یورپ کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، تاہم کئی یورپی ممالک نے الزام لگایا ہے کی روس سے رسد میں کمی کی جا رہی ہے جس کہ وجہ وہ دائرہ قطب شمالی سے جرمنی تک کی روسی نورڈ سٹریم ٹو پائپ لائن قرار دیتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک اس پائپ لائن کے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کی وجہ سے اس کا خیر مقدم نہیں کر رہے اور اسی لیے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے روس نے رسد میں کمی کر رکھی ہے۔
تاہم روس نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نورڈ سٹریم ٹو کے فعال ہونے تک اس کی جانب سے رسد کے چینلز میں اضافے کی صلاحیت موجود ہے۔
اس سے قبل روسی صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت یورپ میں طویل مدتی کنٹریکٹ کے علاوہ سپاٹ خیرداروں (فوری خیریدنے والوں) کے ساتھ کام کرنے کو بھی تیار ہے۔
دنیا میں گیس کا بحران؟
امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کے مطابق یورپ کم آلودگی پھیلانے والے ذرائعے جیسے گیس، جوہری توانائی اور ونڈ انرجی سے بننے والی توانائی پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
تاہم مستحکم موسم کے باعث ونڈ ٹربائنز اتنی توانائی پیدا نہیں کر پائے اور جوہری توانائی کی تنصیبات بھی پرانی ہوتی ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے ان پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب گیس کے بھی ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ناروے اور روس جیسے ممالک سے گیس کی فراہمی میں بھی کمی آئی ہے، جس سے بحران کے سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔
بلوم برگ کے مطابق ایشیا میں ممالک ایل این جی کی درآمد ریکارڈ قیمتوں پر کر رہے ہیں جبکہ چین، جو گیس کا سب سے بڑا خیردار ہے، بھی اب تک اپنے ذخائر پورے نہیں کر سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میگزین دا سپیکٹیٹر میں صحافی سیب کینیڈی لکھتے ہیں کہ رسد کم ہونے اور طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر بولیوں کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
میگزین کے مطابق چینی صدر نے سرکاری توانائی کمپنیوں کو موسم سرما کے لیے فراہمی ’ہر قیمیت پر‘ یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین گیس کے لیے بولی لگائے گا اور اس کے کامیاب ہونے کے امکان یورپ سے زیادہ ہیں۔
سیب کینیڈی لکھتے ہیں: ’عالمی سطح پر ایل این جی درآمدات شمال مغربی یورپ میں معمول سے کم ہیں، کیوں؟ کیونکہ ٹینکر زیادہ بولی لگانے والوں کی جانب ہی جاتے ہیں اور ایشیا ہمیشہ زیادہ پیسے دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق چین، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کے پاس گیس کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت یورپ سے کم ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ قیمت پر خریداری کر سکتے ہیں جس سے یورپ کو مزید دھچکہ لگے گا۔
دوسری جانب بلوم برگ نے اس بحران کے عالمی صورت اختیار کرنے کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ جہاں چین اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوشاں ہے، وہیں جنوبی کوریا بھی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گیس کی مارکیٹ میں خیردار کے طور پر کود سکتا ہے اور برازیل، جہاں قحط سالی کی وجہ سے ہائیڈرو پاور سے بننے والی بجلی میں کمی آئی ہے، وہ بھی گیس کی درآمد کی جانب دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی صنعتیں اور گھروں کو بجلی بحال رکھ سکے۔
اسی طرح ترقی پذیر پاکستان، جو مالی بحرانوں میں گھرا رہتا ہے، وہاں بھی حزب اختلاف کی پارٹیوں نے مہنگی ایل این جی کی خریداری پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ادارے کے مطابق امریکہ اس طلب کو پوری کرنے کے لیے گیس کی برآمداد میں اضافہ کرسکتا ہے، مگر اس سے اس کے اپنے استعمال کے لیے کم ہو جائے گی، اور حالانکہ ایشیا اور یورپ کے مقابلے میں امریکہ میں گیس کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں پھر بھی اس کی تجارت 2014 سے اب تک کی سب سے زیادہ قیمت پر ہو رہی ہے، ذخائر پہلے سے کم ہیں اور پیداوار کرنے والی کمپنیاں اس کے اضافے میں دلچسپی نہیں لے رہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گیس کے غیر مستحکم مارکیٹ اور بڑھتی قیمتوں کے باعث صنعتیں تیل کی جانب جا رہی ہیں اور جمعے کو تیل کی عالمی قیمتوں میں بھی 4.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔