پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملے سے 46 اموات: کابل

طالبان کی وزارت دفاع نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہ وہ اس کا جواب ضروری دیں گے۔

18 اکتوبر، 2017 کو پاکستان کے قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان میں ایک سکیورٹی اہلکار افغان سرحد پر تعینات ہے (اے ایف پی)

طالبان حکام نے بدھ کو بتایا کہ افغانستان کے مشرقی سرحدی علاقے میں پاکستان کے فضائی حملوں میں 46 شہری جان سے چلے گئے، جبکہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ بمباری ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘  پر کی گئی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کی رات پاکستان نے مشرقی صوبے پکتیکا کے برمل ضلعے کے چار علاقوں پر بمباری کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ چھ افراد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ اور فوج نے اس حوالے سے کسی تبصرے کے لیے درخواست کا جواب نہیں دیا۔

لیکن ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے  اے ایف پی کو کہا کہ یہ حملے ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر کیے گئے، جن میں جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔

 انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کم از کم 20 جنگجو مارے گئے۔

انہوں نے افغان حکام کے شہریوں اموات کے دعوؤں کو بھی مسترد کیا۔

طالبان کی وزارت دفاع نے منگل کی رات ایک بیان میں ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’وحشیانہ‘  اور  ’کھلی جارحیت‘ قرار دیا۔

بیان کے مطابق: ’اسلامی امارت اس بزدلانہ اقدام کا جواب دیے بغیر نہیں رہے گی، بلکہ اپنے علاقے اور خودمختاری کے دفاع کو اپنا ناقابل تنسیخ حق سمجھتی ہے۔‘

برمل کے ایک رہائشی ملیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کے حملوں میں ایک خاندان کے 18 افراد مارے گئے۔

’بمباری نے دو یا تین گھروں کو نشانہ بنایا، ایک گھر میں 18 افراد مارے گئے، پورا خاندان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ایک اور گھر میں تین افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے مقامی رہائشی اور وہ لوگ تھے جو پاکستان کی سرحد کے پار وزیرستان کے علاقے سے فرار ہو کر آئے تھے۔

ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں اس حملے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ’جان بوجھ کر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا۔‘

یہ حملہ اس وقت ہوا جب ٹی ٹی پی  نے گذشتہ ہفتے افغانستان کی سرحد کے قریب ایک فوجی چوکی پر حملے کا دعویٰ کیا تھا، جس میں پاکستان کے مطابق 16 فوجی مارے گئے تھے۔

پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ حالیہ حملہ ’ایک اہم وجہ‘ تھا منگل کے حملوں کے لیے، ’لیکن اکیلا یہی نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عبوری طالبان حکومت سے بارہا درخواست کی گئی کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے، لیکن ان کا ردعمل سرد مہری کا شکار رہا۔

انہوں نے کہا ’ایسے حملے ضرورت کے مطابق جاری رہیں گے۔‘

یہ حملے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق کے کابل کے دورے کے چند گھنٹوں بعد کیے گئے، جہاں انہوں نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور تعلقات کو بہتر بنانے سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

اس دورے کے دوران محمد صادق نے افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی اور 11 دسمبر کو اپنے چچا خلیل حقانی کے قتل پر تعزیت کا اظہار کیا۔

وہ پناہ گزینوں اور وطن واپسی کے وزیر تھے جو ایک خودکش بم دھماکے میں جان سے گئے، جس کی ذمہ داری داعش سے وابستہ ایک علاقائی گروپ نے قبول کی تھی۔

محمد صادق نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے وزیر خارجہ عامر خان متقی سے بھی ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے کہا: ’دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘

اسلام آباد اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان ملک میں حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، تاہم کابل اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔

اسلام آباد میں سکیورٹی امور کے ایک ماہر سید محمد علی نے اے پی کو بتایا کہ منگل کے حملے ’پاکستانی طالبان کے لیے ایک واضح اور دوٹوک انتباہ ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر دہشت گرد تنظیم کے خلاف تمام دستیاب ذرائع استعمال کرے گا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ’یہ طاقت کا اندھا دھند استعمال نہی اور پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانے میں مناسب احتیاط برتی ہے کہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے اور کوئی شہری جانی و مالی نقصان نہ ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان