جمی کارٹر کی جنرل ضیا کو دو فون کالز: ایک آگ ایک ریشم

جمی کارٹر نے 1979 میں جنرل ضیا سے برہمی کا اظہار کیا مگر صرف 33 دن کے بعد ایسی کیا کایاکلپ ہوئی کارٹر نے پاکستان کے لیے بانہیں کھول دیں؟

جنرل ضیاء الحق 1986 میں پشاور کے قریب صدر جمی کارٹر کے ساتھ (امریکی سفارت خانہ)

21 نومبر 1979 کو حال ہی میں رحلت پانے والے امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستانی آمر جنرل ضیا الحق کو فون کر کے اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے کے جلائے جانے پر احتجاج کیا جس میں ایک امریکی شہری اور سفارت خانے کے دو پاکستانی ملازم قتل کر دیے گئے تھے۔

جمی کارٹر کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے کہ اتنا بڑا ہجوم بلاروک ٹوک سفارت خانے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ حملہ سعودی عرب میں ایک خود ساختہ ’امام مہدی‘ کے جتھے کی جانب سے خانۂ کعبہ پر قبضے کے ردِ عمل میں کیا گیا تھا کیوں کہ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔

جمی کارٹر کو صرف سفارت خانے کے نذرِ آتش کیے جانے کا غصہ نہیں تھا، ان کے پاس پاکستان کے خلاف شکایات کی طویل فہرست تھی: پاکستان میں مارشل لا قائم تھا۔ جنرل ضیا بار بار الیکشن کروانے کے وعدے کرتے اور مکرتے جاتے تھے۔ انہوں نے اسی سال فروری میں ’اسلامی سزائیں‘ نافذ کر دی تھی جن سے امریکہ کو خدشہ تھا کہ یہاں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ پھر اپریل میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مشکوک عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

لیکن سب سے بڑھ کر امریکہ اس بات پر برہم تھا کہ پاکستان تن من دھن لگا کر ایٹم بم بنانے میں جٹا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے گلین سائمنگٹن ترمیم کے تحت پاکستان پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں لگا دی تھیں۔

یہ شاید پاکستان امریکہ تعلقات کا سب سے پاتالی لمحہ تھا۔ مشکل نظر آتا تھا کہ معاشی مسائل میں گھرے پاکستان اور دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار پاکستان اس دلدل سے کیسے نکلے گا۔ مگر حیرت انگیز طور پر صرف 33 دن کے اندر اندر ہی ایک چمتکار ہو گیا۔ اسی جمی کارٹر نے اسی جنرل ضیا کو فون کر کے انہیں تقریباً پرانے بادشاہوں کے انداز میں پوچھا، ’مانگ کیا مانگتا ہے؟‘

صرف ایک ماہ میں ایسا کیا ماجرا ہوا کہ امریکہ جو پاکستان سے دور پرے منھ موڑ کر کھڑا تھا، اور مزید ہٹنے پر تلا ہوا تھا، اس نے پاکستان کو بانہیں کھول کر جبھی ڈال دی؟

اس سوال کے جواب کے لیے تاریخ کی (بلیک اینڈ وائٹ) سکرین سکرول کرنا پڑے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی صدر جمی کارٹر جنوری 1977 سے جنوری 81 تک امریکی صدر رہے۔ ان کے حلف اٹھانے کے صرف چھ ماہ بعد جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کے کالے نیلے کے مالک بن بیٹھے۔

جب جمی کارٹر صدر بنے تو اس وقت امریکہ کے نزدیک پاکستان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کی اس خطے میں توجہ پڑوسی ایران پر مرکوز تھی، جہاں شاہ کی حکومت لڑکھڑانے کے قریب تھی۔

پاکستان نے ماضی میں چین کے ساتھ سفارت کاری میں مدد ضرور کی تھی مگر اب چین کے ساتھ امریکہ کی ڈائریکٹ ڈائلنگ قائم ہو چکی تھی اور وہ مڈل مین کی ضرورت سے بےنیاز ہو چکا تھا۔

71  میں بنگلہ دیش کے قیام کی خانہ جنگی نے بھی امریکہ کو پاکستان سے دور دھکیلنے میں کردار ادا کیا تھا کیوں کہ امریکہ اس میں پاکستانی فوج کے کردار اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے خوش نہیں تھا۔

دوسری جانب امریکہ کے قومی سلامتی کے طاقتور مشیر زبیگنیو بریزنسکی انڈیا کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے کیوں کہ وہ انڈیا کو خطے کی مقامی طاقت کے روپ میں دیکھنا اور پروان چڑھانا چاہتے تھے۔

پاکستان امریکہ تعلقات پر سب سے گہرا بادل پاکستان کا ایٹمی پروگرام تھا، جو ویسے تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا لیکن اسے ضیاء الحق نے چابک لگا کر سرپٹ دوڑا دیا تھا۔

کارٹر انتظامیہ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور انہوں نے اپنے قانون میں ایسے ملکوں پر پابندیاں لگانے کی شقیں شامل کر دی تھیں جو ایٹمی دوڑ میں شامل تھے۔

اسی لیے 1978 میں امریکہ نے کارٹر کے آنے سے پہلے ہی گلین ترمیم کے تحت پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ اس ترمیم کے تحت امریکی صدر کو اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی ایسے ملک پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جو ان کے خیال میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس دوران فرانس ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں پاکستان کی مدد کر رہا تھا، مگر امریکہ نے فرانس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔

پاکستان نے امریکہ سے اپنے زنگ خوردہ جنگی جہازوں کا بیڑا کو اپ گریڈ کرنے کے لیے امریکہ کو 110 اے 7 لڑاکا طیارے خریدنے کی عرضی ڈال دی مگر گلین سائمنگٹن ترمیم کے تحت پاکستان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

جمی کارٹر کو انٹیلی جنس ذرائع سے مسلسل اطلاعات مل رہی تھیں کہ پاکستان بڑی تندہی سے یورینیم افزودہ کر رہا ہے اور جلد ہی ایٹم بم بنانے کی لکیر پار کر جائے گا۔

امریکہ نے آنکھیں دکھائیں تو جنرل ضیاء الحق نے جمی کارٹر کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

31 جنوری 1978 کے اس خط میں جنرل ضیا نے پہلے تو مایوسی ظاہر کی کارٹر نے سات ملکوں بشمول انڈیا کا دورہ کیا مگر پاکستان کے لیے وقت نہ نکال سکے، اور صرف پاکستانی فضاؤں سے بالا ہی بالا گزرنے پر اکتفا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی بالادستی کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہوں اس لیے امریکہ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

نو اگست 1979 کو انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان کا ایٹمی پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور پاکستان کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

لیکن امریکی سفیر نے جب جنرل ضیا کے سامنے پاکستانی ایٹمی اسلحے کی تیاری کے ثبوت رکھ دیے تو پانچ جولائی 1982 کو جنرل ضیا نے جمی کارٹر کے نام ایک اور خط لکھا اس پر ’سیکرٹ‘ کی مہر لگی ہوئی ہے:

’مجھے سفیر والٹرز کی اس بات نے سخت دکھ پہنچایا ہے کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے، اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جناب صدر، یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ ہمارے پاس ایٹم بنانے کے پرزے یا نقشے ہیں نہ ہی ہم نے انہیں کسی کو دیا ہے۔ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ پاکستان، جو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے لیے پرعزم ہے، وہ ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ میں حصہ لے گا۔‘

یہ تو ہو گیا اتار، اب آتے ہیں چڑھاؤ کی جانب جو اوپر بیان کردہ جمی کارٹر کی جنرل ضیا کو فون کال کے تقریباً فوراً بعد پیش آیا۔

24 دسمبر 1979 کو خطے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سارا سیاق و سباق الٹ پلٹ دیا۔ یہ تھا سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ۔ سوویت یونین نے جس بھی مقصد کے لیے افغانستان میں فوجیں اتاری تھیں، جنرل ضیا اور جمی کارٹر انتظامیہ نے مشترکہ طور پر ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا اگر فوری طور پر کچھ نہ کیا گیا تو ساری دنیا کے امن کی چادر تار تار ہونے کے قریب ہے۔

ادھر ایران میں امریکہ مخالف حکومت آ چکی تھی، اس لیے امریکہ کے پاس پاکستان پر تکیہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور پلک جھپکتے ہی پاکستان امریکہ کے لیے مرکزی اہمیت اختیار کر گیا۔

اب یکایک پاکستان روسیوں کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی مبینہ مہم جوئی روکنے کے لیے فرنٹ لائن ملک بن گیا۔ امریکہ نے اسلحہ خانے کے ساتھ ساتھ خزانے کا بھی منھ کھول دیا۔ پاکستانی سفارت کار امورِ خارجہ کے مشیر آغا شاہی نے امریکہ کا دورہ کر کے صورتِ حال سے آگاہی دی جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فوجی مشیروں کی آمد و رفت کا تانتا بندھ گیا جس کا نتیجہ کئی ارب ڈالر کی اسلحے کے معاہدوں میں نکلا۔

جلد ہی برزنسکی، جن کا پلڑا پہلے انڈیا کی طرف جھکا ہوا تھا، پاکستان تشریف لائے اور ساتھ 40 کروڑ ڈالر کی نقد امداد بھی لائے۔ اکتوبر 1980 میں جنرل ضیا نے خود امریکہ کا دورہ کر کے کارٹر سے ملاقات کی اور ’باہمی دلچسپی کے امور‘ پر بھرپور تبادلۂ خیال کیا اور ماضی کے تمام شکوک و شبہات کو یوں دھو ڈالا جیسے ان کا کبھی وجود تک نہ تھا۔

وہی امریکہ جس نے اس سے پہلے پاکستان کی اے 7 جہاز خریدنے کی کوشش مسترد کر دی تھی، جنرل ضیاء الحقی  کی درخواست مسترد کر دی تھی اب وہ پاکستان کو جدید ترین ایف 16 طیارے فراہم کرنے پر رضامند ہو گیا۔

ضیاء الحق نے اس کے بعد ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے مگر اس کی بھاری قیمت وصول کر رہا ہے۔ یہ قیمت صرف مالی امداد یا اسلحے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق پاکستان کی سلامتی کو لاحق تمام خطرات، بشمول انڈیا سے امریکی حفاظت کی یقین دہانی ہے۔

دوسری جانب جمی کارٹر نے بھی سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کے دفاع کا ہر ممکن طریقے سے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔

ایک طرف تو امریکہ نے خود پاکستان کو بےدریغ ہر قسم کی امداد دینا شروع کر دی بلکہ اس نے یورپی اور خلیجی ملکوں کو بھی قائل کر دیا کہ وہ دل کھول کر پاکستان کی مدد کریں۔

ہر کہانی کا ایک سبق ہوتا ہے۔ اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ ملکوں کی پالیسیاں کاغذ پر لکھے اصولوں یا اسمبلی میں منظور کردہ قوانین کے تابع نہیں ہوتیں، بلکہ زمینی حقائق اور عسکری اور جغرافیائی حالات پر مبنی ہوتی ہیں۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل ضیا چاہے جتنے بڑے آمر رہے ہوں، انہوں نے اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلے اور امریکی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق موم کرنے میں کامیاب رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا