جمی کارٹر کا انتقال: ’ناکام امریکی صدر، کامیاب سفارت کار‘

اتوار کو انتقال کرنے والے جمی کارٹر کی 1977 سے 1981 تک کی صدارت میں کامیابیاں اور تنازعات دونوں شامل تھے۔

سابق امریکی صدر کے ادارے دی کارٹر نے اتوار کو بتایا کہ 100 سالہ جمی کارٹر 29 دسمبر، 2024 کو چل بسے۔

دی کارٹرز نے اپنے بیان میں کہا کہ کارٹر پرسکون انداز میں اپنے اہل خانہ کی موجودگی میں وفات پا گئے۔ 

کارٹر کی 1977 سے 1981 تک کی صدارت میں کامیابیاں اور تنازعات دونوں شامل تھے، جیسے کہ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کی کامیابی، لیکن کچھ معاملات کے باعث امریکی ووٹرز نے انہیں کمزور صدر سمجھا اور وہ دوسری بار صدرارت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکے۔ 

یہاں کارٹر کے دور صدارت میں کیے گئے چند ایسے اہم فیصلوں کا احاطہ کیا گیا ہے جن کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

پاناما کینال 

اپنے عہدِ صدارت کے پہلے برس میں، کارٹر نے اپنی انتخابی مہم کے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے پاناما کینال کا انتظام پاناما کی حکومت کو واپس دینے کا فیصلہ کیا، جو 20 ویں صدی کے آغاز سے امریکی فوج کے کنٹرول میں تھی۔

سات ستمبر، 1977 کو  پاناما کے رہنما عمر ٹوریہوس کے ساتھ کینال معاہدوں پر دستخط کے موقعے پر انہوں نے کہا: ’دنیا کے دیگر اقوام کے ساتھ ہمارے معاملات میں انصاف کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، نہ کہ طاقت کو۔‘

اس فیصلے پر کارٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ اس سے پاناما کو 1999 کے آخر میں بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو ملانے والے کینال کا کنٹرول دیا گیا۔

تاہم، تاریخ میں اس معاہدے کو سفارت کاری کے ایک دانش مندانہ اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔

کینال کے انتظام میں پاناما کو پہلے سے بڑا کردار دینے سے استحکام پیدا ہوا اور لاطینی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سامراجی طاقت کے طور پر تاثر کو کم کرنے میں مدد ملی۔

اتوار کو کارٹر کی وفات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاناما کے صدر جوسے مولینو نے کہا کہ ’سابق امریکی رہنما نے پاناما کو ’اپنے ملک کی مکمل خودمختاری‘ حاصل کرنے میں مدد دی۔‘

سیاست میں اخلاقیات 

اوول آفس میں آمد پر، کارٹر نے اپنے پیشروؤں کے برعکس ’ریئل پولیٹک‘سے خود کو دور کرنے کی کوشش کی اور انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1978 میں امریکی نیول اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمارا بنیادی مقصد ایک ایسی دنیا کی تشکیل میں مدد کرنا ہے جو ہر جگہ لوگوں کی معاشی بہبود، سماجی انصاف، سیاسی خود ارادیت، اور بنیادی انسانی حقوق کی خواہشات کے مطابق ہو۔‘

عملی طور پر، کارٹر نے 1977 میں بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ کئی برسوں تک سینیٹ میں رکا رہا اور بالآخر 1992 میں امریکہ نے اس کی توثیق کی۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدے

ستمبر 1978 میں کارٹر نے اسرائیلی وزیر اعظم میناکیم بیگن اور مصری صدر انور سادات کو کیمپ ڈیوڈ میں مدعو کیا، جو واشنگٹن کے قریب صدارتی قیام گاہ ہے۔

کارٹر کی ثالثی میں 13 دن کے خفیہ مذاکرات کے بعد، دو معاہدوں پر دستخط ہوئے جو بالآخر اگلے برس ایک امن معاہدے کا باعث بنے۔

یہ وہی سفارتی کامیابی تھی جس کا حوالہ دے کر کارٹر کو نوبیل امن انعام دیا گیا۔

اعتماد کا بحران

1979 کی گرمیوں میں، مہنگائی سے متاثرہ معیشت اور ان کی مقبولیت کی شرح میں تیزی سے کمی کے دوران، کارٹر نے 15 جولائی کو ٹیلی ویژن کے ذریعے امریکی عوام سے ملک گیر خطاب کیا۔

اس آدھے گھنٹے میں انہوں نے ناقدین کے ان کی قیادت کے فقدان پر اٹھائے سوالات کی بجائے قومی ’اعتماد کے بحران‘ کو مورد الزام ٹھہرایا۔

انہوں نے کہا کہ ’اعتماد کا یہ فقدان مستقبل میں امریکہ کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تقریر نے عوام میں برا تاثر قائم کیا اور کارٹر کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس تقریر کے بعد کابینہ کے پانچ ارکان نے اسی ہفتے استعفیٰ دے دیا۔

ایران یرغمالی بحران

یرغمالی بحران – جس میں 50 سے زیادہ امریکیوں کو تہران میں امریکی سفارت خانے میں نومبر 1979 سے جنوری 1981 تک 444 دنوں تک یرغمال رکھا گیا – کارٹر کی صدارت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

اپریل 1980 میں ایک ناکام فوجی امدادی مشن نے اس سال کے آخر میں ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات تقریباً ختم کر دیے۔

آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) ریت کے طوفانوں اور میکانیکی مسائل کی وجہ سے ناکام ہوا اور بالآخر مشن منسوخ کر دیا گیا۔ واپسی کے دوران، دو امریکی طیارے آپس میں ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں آٹھ اہلکار ہلاک ہو گئے۔

چند دنوں بعد، اس وقت کے وزیر خارجہ سائرس وینس نے استعفیٰ دے دیا، اور مشن کی ناکامی کارٹر کی بحران حل کرنے کی صلاحیت میں کمی کی علامت بن گئی۔

یرغمالیوں کو بالآخر اس دن رہا کیا گیا جب ریپبلکن رونالڈ ریگن نے جنوری 1981 میں عہدہ سنبھالا، جو نومبر 1980 کے انتخابات میں کارٹر کو شکست دے چکے تھے۔

دی کارٹر سینٹر

کارٹر سیاسی زندگی سے ریٹائرمنٹ کے باوجود 90 سال کی عمر تک انتہائی متحرک رہے۔

1982  میں، انہوں نے کارٹر سینٹر کی بنیاد رکھی، جو تنازعات کے حل، جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ، اور بیماریوں کے خلاف کام کرتا ہے۔

کارٹر، جنہیں اکثر امریکہ کے سب سے کامیاب سابق صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے بڑے پیمانے پر سفر کیا، ہیٹی سے مشرقی تیمور تک انتخابات کی نگرانی کی، اور ایک ثالث کے طور پر پیچیدہ عالمی مسائل کو حل کیا۔

دی ایلڈرز

کارٹر دی ایلڈرز کے رکن بھی تھے، جو سابق عالمی رہنماؤں کا ایک گروپ تھا، جسے 2007 میں نیلسن منڈیلا نے امن اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے قائم کیا تھا۔

دیگر نوبل امن انعام یافتہ شخصیات جیسے جنوبی افریقی آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو (جو 2021 میں وفات پا گئے)، سابق لائبریائی صدر ایلن سرلیف جانسن، اور اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔

جمی کارٹر کے انتقال پر امریکی صدر جو بائیڈن، نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے تعزیتی پیغامات جاری کرتے ہوئے سیاسی و سماجی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

پاکستان کا اظہار افسوس

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمی کارٹر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پیر کو ایکس پر اپنی پوسٹ میں وزیراعظم نے سابق امریکی صدر کی وفات پر ان کے خاندان اور امریکی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جمی کارٹرکی عاجزی اور سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ انسانی مقاصد اور عالمی امن کے لیے ان کے کردار کو تادیر یاد رکھا جائے گا‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ