پھلوں کو خشک کر کے فروخت کرنے والی کوئٹہ کی ہنرمند گھریلو خواتین

خواتین گھر میں بیٹھ کر اپنا کاروبار کر سکتی ہیں اور گھر میں سبزیاں خشک کرکے بازار میں اچھے داموں بھیج کر اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کر سکتی ہیں۔

اشیائے خورونوش کو خشک کرنا انہیں محفوظ کرنے کا سب سے قدیم طریقہ ہے۔

خوراک کو محفوظ کر کے بعد میں استعمال کرنے کے کچھ طریقوں میں کیننگ (canning) اور فریزنگ (freezing) شامل ہیں، مگر سب سے مؤثر طریقہ انہیں دھوپ میں خشک کرنے کا ہے۔

زمانہ قدیم سے خوراک کو دھوپ میں خشک کرنے کا رواج تھا تاکہ خوراک کو اس کی بہترین حالت اور غذائیت کے ساتھ محفوظ کیا جا سکے مگر 1924 میں فلیش فریزنگ (خوراک کو تیزی سے جمانا) کے تعارف سے دھوپ میں خوراک کو خشک کرنے کا رواج کم ہوتا گیا اور اس کی جگہ فریزرز نے لے لی۔

لیکن اب بھی بہت سے لوگوں کے گھروں میں خوراک کو سورج میں خشک کرنے والے یونٹ موجود ہیں یا پھر انہیں تجارتی سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔

پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ بنانے کا یہ قدیم طریقہ کار بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دوبارہ سے نہ صرف مشہور ہو رہا ہے بلکہ اس آسان اور مفید طریقہ کار کو اپنا کر گھریلو خواتین ذریعہ معاش بھی بنا رہی ہیں۔

خواتین کے لیے سکلز اور تجارت کے مواقع فراہم کرنے والا ایک نجی ادارے کے زیر اہتمام دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ گھریلو خواتین کو پھلوں اور سبزیوں کو خشک کرنے کا یہ قدیم اور مفید طریقہ کار بھی سکھایا جاتا ہے، جس کی بدولت سینکڑوں خواتین کو گھر بیٹھے اپنا روزگار فراہم ہو رہا ہے۔

اس پروگرام کی ہیڈ شہناز رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان جیسے قبائلی اور مذہبی معاشرے میں خواتین کے لیے یہ روزگار کافی کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’خواتین کے لیے یہ کام بہت اچھا ہے۔ ہماری تہذیب ایسی ہے کہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خواتین گھر میں بیٹھ کر اپنا کاروبار کر سکتی ہیں اور گھر میں سبزیاں خشک کرکے بازار میں اچھے داموں بھیج کر اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کر سکتی ہیں۔ 

’سولر ڈرائی یونٹ کا اتنا ہی خرچہ ہے جتنا کہ خواتین گھر میں سلائی کرتی ہیں، جبکہ باقی سب کچھ گھر میں موجود ہوتا ہے۔‘

پھلوں کو سکھانے کے لیے انہیں اچھی طرح دھو کر باریک ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں ٹرے میں سکھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔

اوپر اور نیچے ہوا کی گردش کے مناسب انتظام سے پھل کے سوکھنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔

پھلوں میں موجود تیزابیت اور شکر کی وجہ سے انہیں خشک کرنا آسان اور محفوظ طریقہ ہے۔

پھلوں کو سکھانے کے لیے سٹین لیس سٹیل یا لکڑی کے ٹرے میں رکھا جاتا ہے۔ مختلف دھاتی ٹرے کے استعمال سے پرہیز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ پھلوں کو خراب یا ان میں موجود معدنیات کو ضائع کر سکتی ہیں، مگر دھاتی ورق فائدہ مند ہے۔

ان ٹریز کو زمین سے اوپر ایک اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے تاکہ ہوا کی گردش زیادہ ہو اور زمین کی نمی سے دور رہے۔

ٹرے کے اوپر نرم کپڑا ڈال کر اسے حشرات اور پرندوں سے بچایا جاتا ہے۔ تمام اشیائے خوردونوش، جنہیں سورج میں خشک کیا جاتا ہے، کو لازماً رات کو اندر لانا چاہیے کیونکہ رات کو درجہ حرارت کم ہوتا ہے، جس سے پھل میں نمی پیدا ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہناز رحیم کے مطابق: ’پھلوں اور سبزیوں کو دھوپ میں خشک کرنے سے وٹامنز، ریشے (فائبر)، اور بڑے پیمانے پر معدنیات کی مقدار برقرار رہتی ہیں، جسے بعد میں سوپ، دالوں، اور دیگر خوراکوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

’دھوپ میں خشک کیے گئے پھل اور سبزیاں کسی بھی طرح کے تحفظی کیمیکلز کے بغیر ایک سال یا اس سے بھی زیادہ وقت تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔

لوگ مختلف سبزیوں اور پھلوں کو ان کے پیداواری موسم میں خشک کرتے ہیں اور انہیں اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ان کی قلت ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’خوراک میں خشکی کے سبب کسی بھی طرح کے جراثیم کی پیداوار ناممکن ہو جاتی ہے۔ دھوپ کی تیز حرارت پھلوں میں موجود خامروں (انزائمز) کے عمل کو آہستہ کرتی ہے، جس سے پھل خشک تو ہو جاتا ہے مگر اس کے اندر کی تازگی اور ذائقہ کافی حد تک برقرار رہتا ہے۔

’خشک ہونے کے بعد پھل یا سبزیاں ہلکی پھلکی ہو جاتی ہیں اور جب بھی انہیں استعمال کرنے کی ضرورت پیدا ہو تو انہیں پانی میں بھگو کر ان کو اپنی اصل حالت میں لایا جا سکتا ہے۔‘

برطانوی ویب سائٹ ویسٹ مینیجڈ (Waste Managed) کے مطابق دنیا میں پیدا ہونے والے تمام خوراک کا تیسرا حصہ ضائع ہوتا ہے، جس میں 67 فیصد قابلِ خوراک ہے۔

اس ضائع ہونے والے خوراک میں 70 فیصد گھروں سے آتا ہے۔

وزارتِ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 26 فی صد خوراک ضائع ہوتی ہے، جس کی مالیت 4 بلین ڈالر ہے۔

اِسی طرح ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں ایک ٹریلین ڈالر مالیت کا خوراک ضائع ہوتا ہے، جس کی وجوہات میں زیادہ پیداوار، سپلائی چین میں ناکامی، کٹائی کے ناکارہ طریقے، اور ضرورت سے زیادہ خریداری کے ساتھ ساتھ خوراک کو محفوظ نہ کرنا اور رسد کی خرابی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

باریک کٹے پھل آسانی سے خشک ہوتے ہیں، جبکہ موٹے یا آدھے کٹے پھلوں کو خشک ہونے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔

پھلوں کا رنگ برقرار رکھنے کے لیے مختلف کیمیکلز مثلاً سکوربک ایسڈ کا استعمال ہوتا ہے۔ مزید برآں، شہد، پھلوں کے پانی، یا لیموں کے پانی میں بھگو کر بھی ان کی رنگت برقرار رہتی ہے۔

پھلوں کو سکھانے کے علاوہ سبزیوں اور گوشت کو بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ مگر سبزیوں میں تیزاب اور شکر کی مقدار کم ہوتی ہے، جس سے ان کے ضائع ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

مزید برآں، سبزیاں سورج سے آنے والی براہ راست شعاعوں سے خراب ہو سکتی ہیں، اس لیے انہیں سائے میں خشک کرنا تجویز کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح گوشت میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اگر نمی اور حرارت کو قابو نہ کیا جائے تو جراثیم کی نشونما زیادہ ہو سکتی ہے۔

پھلوں اور سبزیوں کو سورج کی روشنی سے خشک کرنا، پھلوں کو محفوظ کرنے کا ایک نہایت ماحول دوست طریقہ ہے، جس میں پھل اور سبزیاں اپنی اصلی حالت میں تمام غذائیت کے ساتھ محفوظ رہتی ہیں۔

خوراک کو محفوظ کرنے کے اس طریقے کو اپنا کر سالانہ ہزاروں ٹن کی خوراک کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، جو نہ صرف قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کو فروغ دے گا بلکہ کروڑوں مالیت کے نقصان سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا