اس آتش فشاں کا معمہ حل، جس نے دنیا کو تقریباً مٹا دیا تھا

سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق انہوں نے 1831 میں پھٹنے والا آتش فشاں دریافت کر لیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈک ہوئی تھی۔

محققین کی ٹیم نے دریافت کیا کہ یہ دور دراز اور غیر آباد جزیرے سموشیر پر واقع زوارٹسکی آتش فشاں ہے، جو روس اور جاپان کے درمیان متنازعے علاقے کوریل جزائر کا حصہ ہے (اولیگ ڈرکسن/ پی اے)

محققین کی ایک ٹیم نے تقریباً 200 سال قبل دنیا بھر میں قحط اور فصلوں کی تباہی کا سبب بننے والے آتش فشاں پھٹنے کا معمہ حل کرنے میں مدد کی ہے۔

سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1831 میں پھٹنے والا آتش فشاں دریافت کر لیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈک ہوئی تھی۔

محققین کی ٹیم نے دریافت کیا کہ یہ دور دراز اور غیر آباد جزیرے سموشیر پر واقع زوارٹسکی آتش فشاں ہے، جو روس اور جاپان کے درمیان متنازعے علاقے کوریل جزائر کا حصہ ہے۔

فی الحال روس کے زیر کنٹرول یہ جزیرہ ایک سٹریٹجک فوجی چوکی کے طور پر کام کرتا ہے۔

سرد جنگ کے دوران، سوویت یونین نے سیموشیر کو ایک خفیہ جوہری آبدوز اڈے کے طور پر استعمال کیا، جہاں وہ آبدوزوں کو ایک زیرآب آتش فشانی گڑھے میں لنگر انداز کرتے تھے۔

سائنس دانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہ آتش فشاں موسم بہار یا موسم گرما کے دوران پھٹا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کو پہلے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ کون سا آتش فشاں پھٹا ہو گا اور سائنسی کمیونٹی میں اس پر کئی سالوں تک بحث ہوتی رہی۔

تاہم سکول آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کے ڈاکٹر ول ہچیسن کی سربراہی میں ہونے والی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح ٹیم نے اس واقعے کے آئس کور ریکارڈز کا تجزیہ کیا، جس سے راکھ کی رپورٹوں کا ایک بہترین ملاپ معلوم ہوا۔

پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز جرنل میں پیر کو شائع ہونے والی اس تحقیق سے ڈاکٹر ہچیسن اور ان کی ٹیم کو زاورٹسکی آتش فشاں سے برف کے کور کے ذخائر کی درست تاریخ اور مماثلت حاصل کرنے میں مدد ملی۔

ڈاکٹر ہچیسن نے کہا کہ ’صرف حالیہ برسوں میں ہم نے قطبی برف کی تہوں سے خوردبینی راکھ کے ذرات نکالنے اور ان پر تفصیلی کیمیائی تجزیہ کرنے کی صلاحیت حاصل کی ہے۔ یہ ذرات بے حد چھوٹے ہوتے ہیں، تقریباً انسانی بال کے قطر کا دسواں حصہ۔

’ہم نے برف کی کیمیائی ترکیب کا تجزیہ کرتے وقت بہت چھوٹے وقفوں (مثلاً، دنوں یا مہینوں) کی سطح پر تبدیلیاں ریکارڈ کیں۔ اس سے ہمیں 1831 کے موسم بہار-گرما کے دوران دھماکہ خیز آتش فشانی کے وقت کی درست نشاندہی کرنے، اس کی شدت کی تصدیق کرنے اور پھر راکھ کے انتہائی چھوٹے ذرات نکالنے کا موقع ملا۔

’مماثلت تلاش کرنے میں کافی وقت لگا اور اس کے لیے جاپان اور روس کے ساتھیوں کے ساتھ وسیع تعاون کی ضرورت پڑی، جنہوں نے دہائیوں پہلے ان دور دراز آتش فشاں سے جمع کردہ نمونے ہمیں فراہم کیے۔

’جب لیبارٹری میں ہم نے دونوں راکھ کا تجزیہ کیا، ایک آتش فشاں سے اور دوسری برف کی تہہ سے، تو وہ واقعی ایک حیرت انگیز دریافت کا لمحہ تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اعداد و شمار ایک جیسے ہیں۔ اس کے بعد، میں نے کوریل ریکارڈز میں آتش فشاں پھٹنے کی عمر اور سائز پر غور کرنے میں کافی وقت گزارا تاکہ خود کو صحیح معنوں میں قائل کر سکوں کہ میچ حقیقی تھا۔‘

ٹیم نے کہا کہ حالیہ تحقیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کوریل جزائر پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے، حالانکہ یہ انتہائی آتش فشانی خطہ ہے۔

ڈاکٹر ہچیسن کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے بہت سے آتش فشاں موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگلا بڑا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، اس کی پیش گوئی کرنا کتنا مشکل ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ایک سائنس دان اور معاشرے کے طور پر، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جب اگلا بڑا دھماکہ، جیسا کہ 1831 میں ہوا تھا، ہو تو بین الاقوامی سطح پر ردعمل کو کیسے مربوط کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق