جاپان کے اوگاسوارا جزائر کے درمیان زیر آب آتش فشاں پھٹنے کے ایک سلسلے نے 1940 کی دہائی میں ڈوب جانے والے جنگی جہازوں کی موجودگی کو ظاہر کردیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے جہاز، جن کو ’گھوسٹ شپس‘ کہا جاتا ہے، ٹوکیو کے جنوب میں 12 سو کلومیٹر کے فاصلے پراوو جیما جزیرے کے قریب پائے گئے ہیں، جو بحر الکاہل کے ایک دور دراز حصے میں آتش فشاں چٹان کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے۔
ان بحری جہازوں کے بارے میں طویل عرصے سے معلوم تو تھا کہ یہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سمندر کے نیچے ڈوبے ہوئے ہیں۔
یہ بحری جہاز اوو جیما کی جنگ کے دوران ڈوب گئے تھے۔ یہ ایک وحشیانہ لڑائی تھی جسے امریکی میرین کور کی تاریخ میں سب سے زیادہ خونریز قرار دیا گیا تھا۔
یہ جنگ جاپانی فوج کی اور اس بات کی پہچان بن گئی کہ یہ ہتھیار نہیں ڈالتے۔
امریکی بحریہ کی جانب سے قبضے میں لیے گئے ان بحری جہازوں کو جنگ کے اختتام پر جان بوجھ کر ساحل کے قریب سمندر میں ڈبو دیا گیا تھا تاکہ امریکی فوجیوں کے لیے ایک عارضی بندرگاہ فراہم کی جا سکے۔
13 اگست کو فوکوٹوکو-اوکانوبا آتش فشاں کے پھٹنے سے ایک نیا جزیرہ بن گیا، جس کے بعد 24 بحری جہاز دوبارہ سطح سمند پر آگئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بحری جہاز ساحل پر موجود ہیں، ان کا کائی لگا ہوا ڈھانچہ بڑے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے لیکن پھر بھی کافی حد تک وہ درست حالت میں ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ارتھ سائنس اینڈ ڈیزاسٹر ریزیلینس کے سیٹسویا ناکاڈا نے ٹی وی آساہی کو بتایا کہ انہیں شک ہے کہ نیا جزیرہ طویل عرصے تک موجود رہے گا کیونکہ چٹانوں کے نئے ذخائر کو گرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جزیرے کے خاتمے سے ڈوبے ہوئے جہازوں کو ایک بار پھر ڈوبتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اوو جیما جاپان میں 110 فعال آتش فشاںوں میں سے سب سے تیزی سے تبدیل ہونے والا آتش فشاں ہے... خاص طور پر سال کے اس وقت، نیشینوشیما، فوکوٹوکو وکانوبا، اور اوو جیما سب ہی فعال ہیں۔‘
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر فروری اور مارچ 1945 میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی شدید لڑائی میں اوو جیما دھماکوں کی وجہ سے تقریباً زمین بوس ہوگیا تھا۔
جب جنگ ختم ہوئی تو اتحادی افواج کے سات ہزار فوجی ہلاک ہو چکے تھے اور جزیرے کا دفاع کرنے والے 21 ہزار آٹھ سو جاپانی فوجیوں میں سے صرف 200 کو زندہ پکڑا گیا تھا۔
© The Independent