اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہسپتالوں پر اور ان کے ارد گرد اسرائیل کی مسلسل بمباری نے محصور فلسطینی علاقے کے صحت عامہ کے نظام کو ’تباہی کے دہانے‘ پر پہنچا دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 12 اکتوبر 2023 سے 30 جون 2024 کے درمیان ہونے والے حملوں سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فلسطینی عوام کی طبی سہولیات تک رسائی پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غزہ میں نظام صحت کی تباہی اور ان حملوں میں مریضوں، عملے اور دیگر شہریوں کی اموات کی اتنی زیادہ تعداد بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قوانین کو نظر انداز کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں 27 ہسپتالوں اور 12 دیگر طبی مراکز پر کم از کم 136 حملوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے اور دیگر شہریوں کا نمایاں جانی نقصان ہوا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ان حملوں نے ’شہری بنیادی ڈھانچے کو اگر مکمل طور پر تباہ نہیں کیا تو کافی نقصان پہنچایا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا کہ ’گویا غزہ میں مسلسل بمباری اور سنگین انسانی صورت حال کافی نہیں تھی، وہ واحد پناہ گاہ جہاں فلسطینیوں کو محفوظ محسوس کرنا چاہیے تھا، حقیقت میں موت کا جال بن گئی۔‘
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب ڈینیئل میرون نے الزام عائد کیا کہ رپورٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار ’من گھڑت‘ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کیا ہے، کبھی بھی بے گناہ شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا، اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ غزہ کے ہسپتالوں کو ’دہشت گرد سرگرمی‘ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب اسرائیل نے غزہ کے ہسپتالوں پر حملے بڑھا دیئے ہیں، شجس پر عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے تنقید کی ہے۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے گذشتہ جمعے کو شمالی غزہ میں صحت کی دیکھ بھال کے آخری مراکز میں سے ایک کمال ادوان ہسپتال پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں مریضوں اور طبی عملے کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ بھی حراست میں لیے گئے عملے میں شامل ہیں اور ان کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس اسرائیل نے اسرائیلی فوج سے ایک ’فوری درخواست‘ کی ہے کہ وہ ڈاکٹر ابو صفیہ کے ٹھکانے کا بتائے، انہیں ’اغوا‘ کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ’آخری مریض کو نکالے جانے تک‘ ہسپتال سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ابو صفیہ کی گرفتاری غزہ کے ہیلتھ کیئر سسٹم اور اس کو برقرار رکھنے والے پیشہ ور افراد پر وسیع تر اسرائیلی حملے کا حصہ ہے۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ایک ہزار سے زائد طبی کارکنوں کو جان سے مارا اور 230 سے زائد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سے 130 اب بھی زیر حراست ہیں۔۔
اسرائیلی فوج نے کوئی بھی تفصیل فراہم کیے بغیر دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہسپتال کی حدود میں حماس کے بنیادی ڈھانچے اور جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
اس نے اس دعوے کو دہرایا کہ حماس کے جنگجو کمال ادوان کے اندر سے کارروائیاں کر رہے تھے لیکن کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جان بوجھ کر ہسپتالوں اور ان جگہوں پر حملے کرنا جہاں بیمار اور زخمی موجود ہوں، بشرطیکہ وہ فوجی اہداف نہ ہوں، جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس نے دو ماہ میں شمالی غزہ میں شہریوں تک امداد پہنچانے کی 140 سے زیادہ کوششیں کیں لیکن اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے’تقریبا کوئی رسائی‘ حاصل نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس تباہی کے متاثرین تک پہنچنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اب جب ان کے آخری ہسپتالوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔‘
محکمہ صحت کے مقامی حکام نے کہا کہ جنوبی غزہ کے خان یونس سے کم از کم 45 فلسطینی مریضوں کو متحدہ عرب امارات میں علاج کے لیے نکالا گیا ہے۔
ان میں سے ایک 10 سالہ عبداللہ ابو یوسف بھی تھے جو گردے فیل ہونے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے ان کی والدہ کی ان کے ساتھ جانے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ان کے ساتھ ان کی بہن بھی موجود تھیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ سکیورٹی کے لیے ساتھ آنے والوں کی جانچ کرتا ہے۔
اس کی والدہ عبیر ابو یوسف نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’بیٹا بیمار ہے اور انہیں ہفتے میں تین سے چار دن ہیموڈائلیسس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل نے گذشتہ برس غزہ پر فضائی اور زمینی حملے کے بعد سے اب تک 45 ہزار 500 فلسطینیوں کو جان سے مارا ہے۔
اس جارحیت کی وجہ سے علاقے کی 23 لاکھ آبادی کا دو تہائی سے زیادہ حصہ بے گھر ہو چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
امدادی اداروں کا اندازہ ہے کہ غزہ کے 16 لاکھ شہری اس وقت عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں، جن میں سے پانچ لاکھ سیلاب زدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔
اسرائیل نے یہ جارحیت اس وقت شروع کی تھی جب ملک کے جنوب میں حماس کے حملے میں تقریبا 1200 افراد مارے گئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
© The Independent