اتوار کو صبح سویرے یحيیٰ البطران نے آنکھ کھولی تو دیکھا کہ ان کی بیوی نورا ان کے نومولود جڑواں بیٹوں، جمعہ اور علی کو جگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ دونوں خاندان کے عارضی خیمے میں اکٹھے سو رہے تھے جو غزہ کے مرکزی علاقے میں واقع ایک کیمپ میں ہے۔
گذشتہ دنوں ساحلی علاقے میں شدید سردی اور موسلا دھار بارش نے ان کی زندگی کو عذاب بنا دیا مگر اس صبح جو یحییٰ نے سنا وہ کہیں زیادہ سنگین تھا۔
یحيیٰ نے بتایا کہ ’نورا نے کہا کہ وہ جمعہ کو جگانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہ نہیں جاگ رہا۔ میں نے علی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی نہیں جاگ رہا۔ میں نے جمعہ کو اٹھایا وہ برف کی طرح سفید اور یخ بستہ تھا۔ جیسے برف کا ٹکڑا، منجمد۔‘
جمعہ جو ایک ماہ کے تھے سردی کی وجہ سے ٹھٹھر کر جان سے گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق غزہ میں حالیہ دنوں میں سردی کی وجہ سے جان سے جانے والے چھ فلسطینیوں میں وہ بھی شامل تھے۔
علی پیر کو نازک حالت میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج تھے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دوسرے موسم سرما نے پہلے سے بے گھر لاکھوں لوگوں کی زندگی میں اذیت میں اضافہ کر دیا ہے جن میں سے کئی بار بار بے گھر ہوئے جب کہ فائر بندی پر اتفاق کی کوششیں کہیں پہنچتی نظر نہیں آتیں۔
جمعہ البطران کی موت اس بات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے کہ بے بس خاندانوں کو درپیش صورت حال کس قدر شدید ہے۔
یحییٰ البطران کا خاندان، جو غزہ کے شمالی قصبے بیت لاہیا سے تعلق رکھتا ہے، اسرائیلی حملوں کے ابتدائی دنوں میں اپنا گھر چھوڑ کر المغازی منتقل ہو گیا جو وسطی غزہ میں کھلے میدان اور جھاڑیوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے جسے اسرائیلی حکام نے انسانی ہمدردی کے زون کے طور پر نامزد کیا۔
بعد میں، جب المغازی کا علاقہ مزید غیر محفوظ ہو گیا، تو یحییٰ خاندان کے ساتھ قریبی شہر دیر البلح کے ایک اور کیمپ میں منتقل ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے بیٹے کے رنگین کمبل کو سینے سے لگائے جمعہ کی والدہ نورا البطران نے کہا کہ ’میں تو بڑی ہوں، شاید یہ سب سہہ لوں، لیکن اس ننھی سی جان نے ایسا کیا کیا تھا کہ اسے یہ سب جھیلنا پڑا؟‘
’وہ یہ سب سہہ نہیں سکا۔ نہ سردی، نہ بھوک اور نہ ہی یہ مایوسی۔‘
پھٹے پرانے خیمے
اس علاقے میں درجنوں خیمے، جو کئی مہینوں کے استعمال کی وجہ سے پہلے ہی خستہ حال ہو چکے تھے، تیز ہوا اور بارش سے اڑ گئے یا پانی میں ڈوب گئے۔
خاندان ان خستہ حال خیموں کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پھٹی ہوئی پلاسٹک شیٹیں جوڑ رہے ہیں اور پانی کو روکنے کے لیے ریت کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔
تین بچوں کی ماں صابرین ابو شنب کے بقول: ’پانی خیمے کے اندر آ گیا۔ گدے اور میرے بچوں کے کپڑے سب بھیگ گئے۔ میں نے بچوں کے کپڑے اتار کر انہیں آج صبح صرف زیر جامہ پہنایا ہے۔‘ خاتون کا خیمہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ سو رہے تھے اور زیر جامہ تک پورے بھیگ چکے تھے۔ قسم لے لو۔ پتلون اور زیر جامہ سب بھیگ گئے۔ سب کچھ بھیگ گیا، کمبل، تکیے، سب کچھ۔‘
ابو شنب دمے کی مریضہ ہیں اور دوا کے باوجود سرد موسم کی وجہ سے گذشتہ ایک مہینے سے ان کی حالت بہتر نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے پاس نہ گرم کمبل ہیں اور نہ ہی موٹے کپڑے۔