2025 اور عالمی رجحانات

چینی کمپنیاں میکسیکو سے لے کر ہنگری تک فیکٹریاں بنا رہی ہیں، اور ان کے پاس متعدد منصوبے ہیں۔ بہر حال، ٹرمپ کی چین اور دیگر ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی پر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 2025 میں عالمی تجارتی جنگ شدت اختیار کر سکتی ہے۔

یکم جنوری 2025 کو دبئی میں سال نو کی تقریبات کے دوران ایک لائٹ شو اور آتش بازی دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ کو روشن کر رہی ہے (فیڈل سینا/ اے ایف پی)

‎دنیا سرد جنگ کے اختتام کے بعد سے زیادہ غیر یقینی نظر آتى ہے۔ اس سال میں جغرافیائی، سیاسی کشیدگیاں بڑھیں گی، عالمی معیشت کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہو گا اور ٹیکنالوجی میں خلل پڑے گا۔

یہ سارے عوامل مل کر موجودہ عالمى رجحانات کو ازسرِ نو ترتیب دے سکتے ہیں۔ عالمی نظام کچھ عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ پیش گوئی کرنا کہ آیا 2025 میں دنیا غیر مستحکم ہو گی یا نہیں، بذاتِ خود قیاس آرائی ہے، لیکن ہم چند عوامل پر ضرور غور کر سکتے ہیں جو مستقبل قریب میں عالمی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس دوران دنیا کا زیادہ کثیر قطبی نظام کی طرف سفر تیز ہو رہا ہے، مغربی بالادستی کم ہو رہی ہے اور کثیرالجہتی ادارے مزید دباؤ میں آ رہے ہیں۔ درمیانی طاقتیں عالمی طاقت کے توازن میں تبدیلیوں کے اس منظرنامے میں عالمی سیاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔

‎2025 میں دیکھنے کے لیے سب سے اہم جغرافیائی سیاسی رجحانات میں یہ ہو گا کہ امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں اپنے اتحادیوں، مخالفین اور حریفوں کے ساتھ کس طرح نمٹتا ہے۔ ٹرمپ کی فتح کے اثرات ہر چیز پر پڑیں گے، جیسے امیگریشن، دفاع، معیشت اور تجارت۔ ان کی ’پہلے امریکہ‘ پالیسی کے باعث امریکہ کے اتحادیوں اور دشمنوں دونوں کے لیے امریکہ کی اتحادیوں کی پختگی پر سوالات اٹھیں گے۔

اس سے جغرافیائی سیاسی اتحادوں کی دوبارہ تشکیل، کشیدگیوں میں اضافے حتیٰ کہ جوہری پھیلاؤ کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کا آئندہ راستہ 2025 میں سب سے اہم سٹریٹیجک عنصر ہو گا۔

فی الحال، امریکہ کا چین کے حوالے سے رویہ تجارتی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو گا، کیونکہ ٹرمپ مختلف ممالک بشمول امریکہ کے اتحادیوں پر پابندیاں عائد کریں گے اور محصولات بڑھائیں گے۔ جب تحفظ پسندی میں اضافہ ہو گا، تو چینی کمپنیاں بيرون ممالک کى منڈیوں تک رسائی حاصل کریں گی، نہ صرف تجارتی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے بلکہ عالمی جنوب میں نئے بازاروں تک رسائی کے لیے بھی۔

چینی کمپنیاں میکسیکو سے لے کر ہنگری تک فیکٹریاں بنا رہی ہیں، اور ان کے پاس متعدد منصوبے ہیں۔ بہر حال، ٹرمپ کی چین اور دیگر ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی پر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 2025 میں عالمی تجارتی جنگ شدت اختیار کر سکتی ہے۔

لندن میں قائم رسک کنسلٹنسی کمپنی کنٹرول رسکس نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والا سال ’قومی سلامتی عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کا رہنما اصول بنے گی۔‘

مزید یہ کہ بلیک راک کے تجزیے میں دیکھا گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی دور میں تیزی ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ واشنگٹن ٹرمپ کی تجارتی تحفظ پسندی کی پالیسی میں کتنی دور تک جائے گا، جو چین-امریکہ تعلقات اور عالمی معیشت کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو گا۔

2025 میں عالمی معیشت ممکنہ طور پر ابھی بھی کووڈ-19 وبا کے بعد کے اثرات، افراطِ زر کے دباؤ اور سپلائی چین کے متغیر حالات سے نبرد آزما ہو گی۔ مرکزی بینکوں کے ان چیلنجوں کے جواب میں اقدامات عالمی مالیاتی نظام عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں، خاص طور پر سود کی شرحوں اور مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے۔

مزید یہ کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹیں جو قرضوں کے بحران یا افراطِ زر کے دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں، عالمی سطح پر معیشت پر اثرات ڈال سکتی ہیں۔ امیر ممالک کے مرکزی بینکوں نے افراطِ زر پر قابو پانے کی کامیابی کا جشن منایا ہے۔ اب مغربی معیشتوں کے سامنے نیا چیلنج ہے: ٹیکس بڑھا کر خسارے کو کم کرنا، اخراجات میں کمی کرنا یا ترقی کو فروغ دينا۔ کئی ممالک کو دفاعی بجٹ بھی بڑھانا پڑ سکتا ہے۔ غرض متعدد ملکوں کو مشکل اقتصادی فیصلے درپیش ہیں۔

امریکہ میں ٹرمپ کی پالیسیوں سے حالات مزید بدتر ہو سکتے ہیں: بھاری درآمدی محصولات ترقی میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور افراطِ زر کو دوبارہ بھڑکا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سبز توانائی کی طرف منتقلی اور اس تبدیلی کے ممکنہ اقتصادی نتائج (جیسے ملازمتوں کا ختم ہونا یا ٹیکنالوجی میں خلل) بعض علاقوں میں بےچینی کا سبب بن سکتے ہیں، جو عدم استحکام میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

2025یہ بھی طے کرے گا کہ جغرافیائی سیاسی منظرنامہ کس طرح عدم استحکام کا ایک اہم باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ چین تعلقات، جنوبی چین سمندر میں تنازعات، تائیوان پر ممکنہ تصادم، یوکرین میں جاری جنگ اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی ایک بڑھتی  ہوئی تقسیم شدہ دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

قوم پرستی، فوجی طاقت میں  اضافہ، اور سفارتی تعطل غیر متوقع نتائج کا سبب بن سکتے ہیں، اور ایک خطے میں ہونے والے تنازعات عالمی سلامتی اور معیشت پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ مریکہ، جو طویل عرصے تک ایک غالب سپرپاور رہا ہے، 2025 میں ایک زیادہ کثیر قطبی عالمی نظام کا سامنا کر سکتا ہے، جس میں چین اور انڈیا عالمی سیاست اور معیشت میں زیادہ اہم کردار ادا کریں گے۔ چین کی ہند-بحرالکاہل میں جارحانہ کارروائیاں اور اس کا ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو‘ امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کر رہے ہیں۔

یوکرین میں روس کی جاری سرگرمیاں اور وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اس کی بڑھتی ہوئی موجودگی بھی امریکی طاقت کے لیے اہم چیلنج ہیں۔ ٹرمپ یوکرین کو روس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر زور دے سکتے ہیں، اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں اس کے تنازعات میں آزادانہ کارروائی کی اجازت دے سکتے ہیں اور شام میں مداخلت سے بچنے کی خواہش رکھتے ہیں، مگر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ وہاں کے پیچیدہ علاقائی نتائج کے تحت یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی لین دین پر مبنی پالیسی اور غیر ملکی معاملات میں شکوک و شبہات چین، روس، ایران اور شمالی کوریا کی طرف سے مشکلات پیدا کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے اور علاقائی طاقتوں جیسے سوڈان میں بحران کے دوران مداخلت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امریکی فوج، جو ابھی بھی طاقتور ہے، کئی محاذوں پر جاری والی جنگوں کی وجہ سے کمزور پڑ سکتی ہے، جس سے اس کی فیصلہ کن کارروائی کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔ یہ بدلتے ہوئے رجحان امریکی طاقت کی حدود کو اجاگر کر سکتی ہیں اور عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے اثر و رسوخ کے باعث امریکہ کی قیادت میں عالمی اداروں کو چیلنج کر سکتی ہیں۔

2024 سے ہمیں جو سبق ملے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی غیر متوقع ہو سکتا ہے، اور اس کی توقع کی جانی چاہیے۔

2025 میں کیا غیر ممکن ہو سکتا ہے، ایک اور وبا یا تیسری عالمی جنگ؟ کیا دنیا اس کے لیے تیار ہے؟

دنیا بھر میں جمہوریت کو چیلنجوں کا سامنا جاری رہے گا۔ سیاسی مرکز کی کمزوری اور وسطی سطح کے خاتمے یا انحطاط کا رجحان دنیا بھر میں ایک عالمی رجحان بن چکا ہے۔ چونکہ جمہوریت عوام کے ہاتھوں میں طاقت دیتی ہے اور اس کو مخصوص طبقوں سے چھینتی ہے، اس لیے اشرافیہ کے لیے جمہوریت کو کم کرنے کا ایجنڈا اپنانا ضروری ہو گیا ہے (نوام چومسکی اپنی کتاب ’ریکوئیم فار دی امریکن ڈریم: دی ٹین پرنسپلز آف کانسنٹریشن آف پاور اینڈ ویلتھ‘میں)۔

جمہوریت کی زوال کی یہ عالمی لہر، جس کا ذکر کئی بین الاقوامی تنظیموں نے کیا ہے، توقع ہے کہ جاری رہے گی، ساتھ ہی ساتھ ’آٹوکریسی‘ میں اضافہ اور جمہوری حقوق و آزادیوں میں پسپائی بھی ہو گی۔

پچھلے سالوں سے جاری رجحانات حوصلہ افزا نہیں ہیں، کئی ممالک میں سیاسی تقسیم کا بڑھنا، اور سیاست کا مزید منتشر ہونا جاری رہا ہے-عام طور پر، 2024 کے غیر معمولی انتخابی لہر میں حکومتی جماعتوں کی کارکردگی خراب رہی۔ بعض کو نکال دیا گیا (جیسے امریکہ اور برطانیہ میں)، بعض کو اتحاد کرنے پر مجبور کیا گیا (جیسے انڈیا اور جنوبی افریقہ میں)، اور بعض کو ہم آہنگی میں دھکیل دیا گیا (جیسے تائیوان اور فرانس میں)۔ عالمی رہنما بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور ان کی آبادی بھی جیسا کہ امریکہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سیاسی رہنماؤں کے لیے عمر کی حدوں پر مزید بحث کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس دوران چین ایک بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ دنیا میں اقتصادی مواقع تلاش کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بعض حصوں میں، اس کے برعکس، ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی، جس کے ساتھ روزگار کی کمی ہے، عدم استحکام کا خطرہ پیدا کرتی ہے۔

جیسے جیسے دیگر عالمی طاقتیں اپنے آپ کو منوا رہی ہیں، بین الاقوامی ادارے جیسے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور حتیٰ کہ نیٹو بھی تبدیلیوں سے گزر سکتے ہیں۔ امریکہ کو ان ممالک سے بڑھتی ہوئی مزاحمت یا مقابلے کا سامنا ہو سکتا ہے جو عالمی حکمرانی کے ڈھانچوں میں زیادہ کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ جنوبی ایشیا میں انڈیا یا لاطینی امریکہ میں برازیل جیسی علاقائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی خود مختاری بھی امریکہ کے زیرِ قیادت کثیر الجہتی ڈھانچوں کی تاثیر کو کم کر سکتی ہے۔

ارسطو کا کہنا بالکل درست تھا کہ جمہوریت کے مسائل کو دور کرنے کا طریقہ عدم مساوات کو کم کرنا ہے، جمہوریت کو کم کرنا نہیں۔

اس لیے 2025 توقعات کا سال ہو گا۔ کیا نئے رہنما وہ سب کچھ فراہم کر سکیں گے جو انہوں نے وعدہ کیا ہے؟ کیا رہنما بدلیں گے؟ اگر نہیں، تو بدامنی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پیش رفت 2025 میں ایک اور اہم رجحان ہو گا جس پر نظر رکھی جائے گی۔

کاروبار، دفاتر، تفریح، میڈیا، صحت اور ذاتی زندگی میں اے آئی سے چلنے والے ٹولز مزید عام ہوں گے۔ یہ پہلے ہی مختلف شعبوں میں اہم تبدیلیاں لا چکے ہیں۔ برطانوی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس کا ماننا ہے کہ عالمی اے آئی گورننس پر کارروائی آئندہ سال میں زیادہ توجہ حاصل کرے گی۔

ڈیجیٹل دنیا نئے مواقع پیش کر رہی ہے، حالانکہ یہ مختلف شعبوں میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے ایک راہ فراہم کرتے ہوئے چیلنجوں کا بھی سامنا کر رہی ہے۔ ورچوئل رئیلٹی 2025 میں بھی موجود رہے گی، جو اپنے عادیوں کو اصل دنیا سے الگ کر دے گی۔ ٹیکنالوجی میں جدت دنیا کے انتشار کو مزید بڑھائے گی۔

ایئن بریمر اپنی کتاب ’دی فیلیر آف گلوبل ازم‘ میں لکھتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی یافتہ دنیا کے درمیان ٹیکنالوجی کی ترقی کی دوڑ فاتحین اور شکست خوردہ دھڑوں کو جنم دے گی ۔ یہ کاروباری تاریخ کا سب سے بڑا جوا ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے لیے ڈیٹا سینٹرز پر دس کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے، حالانکہ کمپنیاں ابھی تک یہ نہیں جانتیں کہ اسے کس طرح استعمال کیا جائے اور اس کی اپنانے کی شرح کم ہے (اگرچہ بہت سے کارکنان اسے خفیہ طور پر استعمال کر رہے ہیں)۔

کیا سرمایہ کار اپنے حوصلے کو کھو دیں گے، یا اے آئی اپنی حقیقت ثابت کرے گا جب ’ایجنٹک‘ سسٹمز مزید قابل ہوں گے اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ادویات سامنے آئیں گی؟ ٹیکنالوجی کی دوڑ، خاص طور پر مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، اور سائبر سکیورٹی میں 2025 میں جدید رجحانات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2025  کے لیے ایک اور اہم رجحان ’گرے زون ایگریشن‘ (gray zone aggression) کا عروج ہے، یہ ایک اصطلاح ہے جو ایسی دھمکیوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو واضح طور پر متعین نہیں کی جا سکتیں، جیسے کہ غلط معلومات کی مہمات اور پراکسی جنگیں۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہے، یہ دھمکیاں پیش گوئی کرنا اور کم کرنا مزید مشکل ہوتی جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں سائبر سیکیورٹی، انفراسٹرکچر، اور فوجی آپریشنز جیسے اہم شعبوں میں کمزوریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ریاستی اور غیر ریاستی اداکاروں کی جانب سے سائبر حملے بڑھ سکتے ہیں، اور جنگ میں AI کا غلط استعمال، بشمول خود مختار ہتھیاروں اور ہائبرڈ جنگی حکمت عملیوں کا استعمال، روایتی فوجی آپریشنز کو چیلنج کر سکتا ہے۔ “سائبر کرائم ایز اے سروس” (CaaS) کا ابھار سائبر حملوں کو مزید قابل رسائی بنا دے گا، جس سے معاشروں، معیشتوں، اور سیاست میں مزید بے چینی پیدا ہوگی۔

اسی دوران، امریکہ کو موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض جیسے بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے عالمی اثر و رسوخ میں کمی د یکھنا پر سکتا ہے۔ اگرچہ امریکہ عالمی موسمیاتی پالیسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ماحولیاتی آفات اور موسمیاتی بحرانوں کی شدت میں اضافے کی وجہ سے امریکی اقدامات کو دوسری قوموں کی جانب سے زیادہ فیصلہ کن کارروائیوں کے نتیجے میں سایہ پڑ سکتا ہے۔ ناؤمی کلین اپنی کتاب (This Changes Everything: Capitalism vs the Climate) میں دعویٰ کرتی ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت برسوں کی ٹیکنالوجی کی جدت نے موسمیاتی تبدیلی پر اثر ڈالا ہے، اور ہمارے اقتصادی اور سیاروی نظام جنگ کی حالت میں ہیں۔ سمندر کی سطح کا بڑھنا، شدید موسمی حالات، اور وسائل اور غذا کی کمی جغرافیائی سیاسی تناؤ کو بڑھا سکتے ہیں، جس کے لیے کثیر الجہتی تعاون کی ضرورت ہوگی جہاں امریکہ ہمیشہ اپنی طاقت نہیں رکھ پائے گا۔ اسی طرح، صحت کے خطرات جیسے وبائیں یا پرانی بیماریوں کا دوبارہ ابھرنا عالمی رجحانات کو بدل سکتا ہے، اور امریکہ کی طرف سے ایک مربوط ردعمل کی قیادت کی صلاحیت داخلی سیاسی مسائل یا بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر دوسرے ممالک عالمی صحت کے چیلنجز کے لیے زیادہ مشترکہ یا آزادانہ طریقے اپناتے ہیں۔

نیا سال 2024 کے حل طلب اور نظرانداز شدہ مسائل کا بھاری بوجھ لایا ہے جو قوموں کی لچک اور عالمی برادری کی مشترکہ مسائل کے حل کی صلاحیت کو آزمائے گا۔ حالانکہ مستقبل کی اتار چڑھاؤ کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے، لیکن اقتصادی، جغرافیائی سیاسی، تکنیکی، ماحولیاتی، اور سماجی عوامل کے اشتراک سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں بدلتے ہوئے رجحانات جاری رہیں گے۔ اگر اتار چڑھاؤ ہوتا ہے تو یہ ان عوامل کے درمیان پیچیدہ تعاملات کا نتیجہ ہوگا۔ حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور افراد کو ان بڑھتے ہوئے چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور ان کا جواب دینے کی ضرورت ہوگی تاکہ ایک غیر مستحکم عالمی ماحول کے خطرات کو منظم کیا جا سکے۔


زنیرہ خان نے انٹیلی جنس اور سکیورٹی سٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ انسداد دہشت گردی اور جدید دنیا کو درپیش نئے خطرات کی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر