وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والی ’سازشوں‘ میں ’خوارجی ہاتھ‘ ہے اور جن ممالک سے انہیں مدد مل رہی ہے، ان کا پاکستان کو علم ہے۔
جمعے کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ’سرحد پار سے پاکستان پر جو چند دن پہلے حملہ ہوا، جس کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور یہاں پر ان کے جو گھس بیٹھیے موجود ہیں، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں اور بلوچستان میں جو پاکستان کے خلاف سازشیں بُنی جا رہی ہیں، ان میں خارجی ہاتھ ہے، اس کا ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ کون کون سے ممالک سے ان کو مدد مل رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’کل جو ہم نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ایجنڈے پر غور کیا ہے، وہ تب ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، جب ہم مل کر نہ صرف چاروں صوبوں، وفاق، گلگت بلتستان اور کشمیر میں امن و امان کو بہتر کریں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فتنہ الخوارج کا مکمل صفایا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
بقول وزیراعظم: ’کس طریقے سے دوبارہ اس فتنے نے سر اٹھایا ہے، میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، میں صرف یہ گزارش کروں گا کہ صوبے مل کر وفاق کے ساتھ اور دفاعی ادارے مل کر ایک مرطوط پلان بنائیں، جس سے پاکستان کی بہتری اور خوشحالی کا تعلق ہے۔۔۔ قومی سلامتی سب سے اہم ہے اور مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ اس طرف بیٹھے تمام ارکان کی یہی سوچ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیجیٹل محاذ پر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ پاکستان سے باہر جو دوست نما دشمن بیٹھے ہیں، جو ملک دشمن ایجنٹس باہر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، یہ ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، وہ حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف جھوٹ اور حقائق کو مسخ کرنے کی بنیاد پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ صوبے اور وفاق سوشل میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اسلام آباد پر حالیہ یلغار کے بعد سوشل میڈیا پر جو ہوا، اس کی حالیہ وقتوں میں نظیر نہیں ملتی، میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے صوبے اور وفاق کوشش کر ہے ہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں، جن پر ہمیں سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے سکیورٹی اداروں کے افسران اور جوان دن رات قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہمارے جوانوں کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائیں گی۔‘
وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے عسکری ذرائع نے بتایا تھا کہ 27 اور 28 دسمبر کی درمیانی شب 20 سے 25 عسکریت پسندوں نے افغان طالبان کی سرحدی پوسٹوں کا استعمال کرتے ہوئے ضلع کرم اور شمالی وزیرستان میں دو مقامات سے پاکستان میں در اندازی کی کوشش کی، جسے سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کر کے ناکام بنا دیا۔
اس سے قبل 24 اور 25 دسمبر کی رات پاکستان کی جانب سے افغانستان میں فضائی حملے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو خبر رساں ادارے ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا کے ضلعے برمل کے چار علاقوں پر بمباری کی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘
تاہم ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یہ حملے ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر کیے گئے، جن میں جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستانی طالبان ملک میں حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں، تاہم کابل اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔