ناروے: بچوں کا جنسی استحصال، منشیات اور مافیا درد سر بن گیا

ناروے میں معاشرتی معاملات ہیں جہاں اندر ہی اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ناروے میں ریپ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے جس سے 15 سے 20 فیصد نارویجن متاثر ہوئے ہیں۔

سات اگست 2015 کو اوسلو سے 40 کلومیٹر مغرب میں یوٹویا جزیرے میں 2011 کی خونریزی کے بعد نارویجن لیبر پارٹی یوتھ ڈویژن کے پہلے سمر کیمپ کے افتتاحی اجلاس میں موجود کارکنان (اے ایف پی / او ڈی اینڈرسن)

دنیا کے ٹاپ ٹین امیر ترین، خوش حال اور محفوظ ترین ممالک کی فہرستوں میں بالعموم ناروے کا سکینڈے نیوین علاقہ ہمیشہ ٹاپ پہ رہتا ہے۔

ان فہرستوں کے حساب سے ناروے وہ جگہ ہے جہاں نیت بھری، جیب بھری، پیٹ بھرا، گھر بھرا رہتا ہے، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مکمل تصویر ان مشہور نمبر گیم، ٹاپ ٹین وغیرہ سے پرے کچھ اور ہوتی ہے۔

مشہور نارویجن اخبار وے گے نے گذشتہ ہفتے ایک 14 برس کی بچی کی مکمل کہانی رپورٹ کی ہے۔ میڈلین نامی بچی نے مسلسل ریپ، استحصال اور کم عمری میں منشیات کی لت سے تنگ آ کر گذشتہ برس مبینہ خودکشی کی تھی۔

ایک خوش حال نارویجن گھرانے کی اس بچی نے نو برس کی عمر سے ہی منشیات لینا شروع کر دی تھی۔ منشیات کی لت سے چھٹکارے کے لیے والدین نے حکومتی اداروں سے مدد مانگی تو بچی کو منشیات کے علاج کے لیے مخصوص ہوسٹل بھیج دیا گیا۔

علاج تو کیا ہونا تھا اسی سینٹر کے ایک ملازم نے مبینہ طور پر میڈلین سمیت دیگر لڑکیوں کو مسلسل کئی ماہ تک ریپ کیا۔ اسی علاج گاہ میں گذشتہ برس دو لڑکیاں زیادہ نشہ لینے سے مر بھی چکی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ناروے کسی تباہی کے دہانے پہ ہے اور یہاں کے عسکری افسران میڈیا والوں کو کال کرکے معاشی خوش حالی کی جھوٹی خبریں چلواتے ہیں۔ ناروے میں معاشی فرنٹ سے ہٹ کر معاشرتی معاملات ہیں جہاں اندر ہی اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔

ابھی حال ہی میں نارویجن شہزادی میتے ماریت کے بیٹے ماریئس بورگ ہوئیبی کی گرفتاری کے ساتھ جرائم کی حالیہ لہر مزید کھل کر سامنے آئی ہے۔ 24 سالہ ہوئبیی پہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنی گرل فرینڈ کا ریپ کیا جب کہ وہ لڑکی بے ہوش تھی۔ الزام ہے کہ ہوئیبی نے شراب اور کوکین کے نشے میں دھت ہوکر لڑکی کے گھر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔

ابھی ایک الزام ہی لگا تھا کہ نارویجن شہزادے کے سوتیلے بیٹے کو تفتیش میں ایک اور کیس کا بھی سامنا کرنا پڑ گیا، جہاں ان پہ ایک پارٹی میں ملنے والی لڑکی کے ریپ کا الزام ہے۔

نارویجن عمومی طور پہ اپنی دنیا میں مگن، اپنے آپ میں رہنے والے تنہائی پسند لوگ ہوتے ہیں لیکن سماجی طور پہ زندہ رہنے، نئے لوگوں سے ملنے کے لیے نارویجن نوجوانوں میں پارٹی کلچر خاصا مشہور ہے۔

نارویجن نوجوان یہ بتاتے ہوئے بھی نہیں کتراتے کہ ون نائٹ سٹینڈ یعنی صرف ایک رات کا جنسی تعلق قائم کرنے اور اس کے بعد اجنبی بن جانے میں یہ سرفہرست ہیں۔ ناروے میں پارٹی کلچر، ریپ، منشیات اور جرائم مافیا کے تانے بانے مجھ سمیت کسی صحافی کا مشاہدہ نہیں باقاعدہ مطالعاتی تحقیقات کے نتائج ہیں۔

مقامی اخبارات میں اگرچہ عمومی طور پہ ریپ کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعات سرے سے ہوتے ہی نہیں۔ نارویجن سینٹر فار وائلنس اینڈ ٹراماٹک سٹریس سٹڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ناروے میں ریپ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے، جس سے 15 سے 20 فیصد نارویجن متاثر ہوئے ہیں۔

دنیا کا محفوظ ترین ملک ہونے کے باوجود یہاں ہر پانچ میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا شکار ہوئی ہے۔ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین میں اکثریت کی عمر محض 15 سے 25 سال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناروے میں ریپ کے اکثریتی کیسز میں ملزمان کوئی قریبی دوست، کلاس فیلو یا جاننے والے ہوتے ہیں۔ اس میں وہ ریپ کیسز بھی آتے ہیں جو کہ ڈیٹنگ یا عارضی دوستی کے دوران ہوتے ہیں۔ ریپ کرنے والوں میں دوسرا نمبر اجنبی افراد کا آتا ہے، جو تاک لگا کر لڑکیوں کا شکار کرتے ہیں۔ یہ افراد زیادہ تر منشیات اور جرائم کے ریکٹ سے منسلک ہوتے ہیں۔

ناروے میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کا ریپ کا شکار ہونا کوئی حتمی تعداد نہیں۔ ریپ کے مسئلے کے پیچھے چھپا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ریپ کا شکار کم عمر لڑکیاں کسی کو بتاتی نہیں۔

2025 آ گیا ہے لیکن آج بھی ناروے کے سکالرز اس مدعے پہ پریشان ہیں کہ نارویجن پولیس کی اچھی شہرت ہونے کے باوجود ملک میں لڑکیاں ریپ کے واقعات رپورٹ کیوں نہیں کرتیں، دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو کیس رپورٹ ہو جائیں وہ منطقی انجام تک شاذونادر پہنچتے ہیں۔

ریپ کیسز میں ایک بڑی وجہ شراب اور دیگر منشیات کا استعمال ہے۔ ناروے سمیت پورا نارڈک ریجن گذشتہ کئی دہائیوں سے ڈرگ مافیا کے ہاتھوں پریشان ہے۔ اوسلو کی میئر نے خبردار کیا ہے کہ ناروے ڈرگ مافیا کا یورپ کے لیے گیٹ وے بن گیا ہے۔ ناروے میں ڈرگ مافیا کا نشانہ کم عمر بچے بچیاں ہیں۔

درجنوں سٹڈیز موجود ہیں کہ ناروے کے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکولوں کے طلبہ و طالبات میں حشیش، چرس، ہیروئن اور دیگر نشہ آور ادویات کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ناروے نے 90 کی دہائی میں اگرچہ ڈرگ مافیا کو شکست دی تھی لیکن یہاں کے سکولوں سے منشیات کا مکمل صفایا اب تک نہیں ہو سکا۔ مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ نارویجن وزیراعظم نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں اوسلو کے چار ایسے بچوں کا ذکر کیا ہے، جن کی عمریں 12 سے 13 برس ہیں اور وہ منشیات کے عادی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

دنیا کے محفوظ اور خوش حال ترین ملک کے آنگن میں ہر طرف صرف پھول ہی پھول نہیں کھلے، کچھ ٹوٹ پھوٹ ہے جسے قابو کرنے کی کوشش جاری ہے۔

حال ہی میں ناروے میں سوئیڈش ڈرگ مافیا کی دوبارہ انٹری نے نئی ہیڈلائنز بنائی ہیں۔ اگلے کسی کالم میں آپ کو سوئیڈش ڈرگ مافیا کا تعارف بھی کرواتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر