برطانوی سیکرٹری صحت ساجد جاوید نے دو خواتین کے قتل اور نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے مردہ خانے میں 100 کے قریب لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اعتراف کرنے والے ہسپتال ملازم کے خلاف تفتیش کا حکم دیا ہے۔
67 سالہ ڈیوڈ فلر نے کینٹ، سسیکس ہسپتال اور بعد میں کینٹ کے ٹنبریج ویلز ہسپتال میں 12 سال کے عرصے میں سینکڑوں مریضوں کی لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے تصاویر کھینچیں اور خود کو ریکارڈ کیا۔
تفتیشی افسران نے ملزم کے 99 متاثرین میں سے 78 کی شناخت کر لی ہے۔
فلر نے جمعرات کو میڈ سٹون کراؤن کورٹ میں 1987 میں ٹنبریج ویلز، کینٹ میں دو الگ الگ واقعات میں 25 سالہ وینڈی نیل اور 20 سالہ کیرولین پیئرس کو قتل کرنے کا جرم قبول کیا۔
سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے فلر کے اقدامات کو ’خوفناک‘ قرار دیا اور کہا کہ سابق ڈاکٹر اور ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو سر جوناتھن مائیکل کی سربراہی میں ایک آزاد انکوائری اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا ہوا۔
سیکرٹری صحت نے کہا کہ ہسپتالوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مردہ خانوں کی حفاظت کو بہتر بنائیں اور ہیومن ٹشو اتھارٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا مردہ خانوں کے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میری ہمدردی ان ہولناک کارروائیوں کے متاثرین کے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ ساتھ این ایچ ایس ٹرسٹ اور وسیع تر صحت کی خدمات میں کام کرنے والے تمام افراد کے ساتھ ہیں جو میری طرح ان جرائم کی ناقابل بیان نوعیت سے دہل گئے ہیں۔‘
ساجد جاوید نے کہا: ’ہم حکومت میں مقامی پولیس فورس کے ساتھ مل کر اعتماد سے کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرہ خاندانوں کو وہ جامع مدد ملے جس کی انہیں اس وقت ضرورت ہے۔‘
ملزم فلر این ایچ ایس میں بطور الیکٹریشن ملازمت کے دوران مردہ خانے تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ملزم نے جمعرات کو اپنی درخواستوں کو اپنے مقدمے کی سماعت کے چار دن کے اندر تبدیل کر دیا۔ سماعت کے دوران یہ بتایا گیا کہ فلر نے دو خواتین کو قتل کرنے کے بعد ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔
ملزم نے خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا لیکن ’کم ذمہ داری‘ کے قانون کی بنیاد پر قتل کا جرم قبول نہیں کیا۔
اپنے مقدمے کی سماعت سے پہلے فلر نے 51 دیگر جرائم کا اعتراف کیا، جن میں مردہ خانوں میں 78 شناخت شدہ متاثرین سے متعلق 44 الزامات بھی شامل ہیں۔ ان مردہ خانوں میں وہ الیکٹریشن کے طور پر کام کر رہا تھا۔
2008 اور نومبر 2020 کے درمیان متاثرین میں 18 سال سے کم عمر کے تین بچے اور 85 سال سے زیادہ عمر کے متاثرین شامل تھے۔
فلر نے خود کو پیمبری کے کینٹ اور سسیکس ہسپتال اور ٹنبریج ویلز ہسپتال کے اندر مردہ خانوں میں یہ جنسی حملے کرتے ہوئے فلمایا، جہاں وہ 1989 سے بطور الیکٹریشن کام کر رہے تھے۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کے مطابق، پولیس نے قتل کی تفتیش میں شواہد اکٹھے کرنے کے لیے سسیکس میں فلر کے گھر کی تلاشی لی، جہاں سے جنسی زیادتی کی 40 لاکھ تصاویر ملیں۔
اسی طرح تصاویر زیادہ تر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی تھیں، ان سے انکشاف ہوا کہ فلر نے ہسپتالوں میں ملازمت کے دوران خود کو لاشوں سے بدسلوکی کرتے ہوئے بھی ریکارڈ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
33 سال تک قانون کی پہنچ سے دور رہنے کے بعد، فلر کو گذشتہ سال تین دسمبر کو کئی دہائیوں پرانے ڈی این اے شواہد کے نئے تجزیے کے بعد قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جس نے ان کو قتل سے جوڑا۔
مقتول خاتون وینڈی نیل 23 جون 1987 کو گلڈ فورڈ روڈ میں اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پائی گئیں۔
عدالتی شواہد کے مطابق ان کے جسم پر اور سر پر شدید چوٹیں، دم گھٹنے اور موت کے بعد جنسی زیادتی کے نشانات دکھائے گئے۔
سی پی ایس نے کہا کہ خاتون کی رضائی پر چھوڑے گئے نمونوں نے فلر کے قاتل ہونے کا امکان ایک ارب گنا زیادہ کر دیا۔
قتل کی گئی دوسری خاتون پیئرس کو پانچ ماہ بعد گروسوینر پارک میں ان کے گھر کے باہر اُسی سال 24 نومبر کو قتل کر دیا گیا۔
لاپتہ ہونے کی اطلاع سے قبل، پڑوسیوں نے رات کو پیئرس کے فلیٹ سے چیخیں سننے کے بارے میں بیان کیا تھا اوربعد میں فلیٹ میں ان کا کوئی نشان نہیں تھا۔
مقتولہ کی برہنہ لاش بعد میں 15 دسمبر 1987 کو سینٹ میری-ان-دی-مارش میں پانی کے بند سے دریافت ہوئی۔
پیئرس کے پاجامے پر موجود نمونوں نے فلر کو کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں اس کے قاتل ہونے سے 160,000 گنا زیادہ قریب کر دیا۔
فلر نے بسٹر براؤنز ریستوران میں جانے کا ثبوت بھی اپنے پاس رکھا جہاں پیئرس نے کام کیا تھا اورسوپا اسنیپ سلیوز میں تصاویر بھی، جس کمپنی میں نیل ملازم تھی۔
دونوں خواتین کی موت کے واقعات میں مشکوک سرگرمی کی اطلاعات تھیں، مقامی لوگوں نے اپنی کھڑکیوں سے ایک شخص کو دیکھنے کی اطلاع دی تھی۔
ہسپتال کے دو مردہ خانوں میں موجود مردہ خواتین کی تصاویر ملزم کے گھر سے ملی تھیں جن کے ساتھ فلر نے بدسلوکی کی تھی۔ افسران نے چار ہارڈ ڈرائیوز بھی برآمد کیں جن میں الماری کے پچھلے حصے سے ملنے والی ڈرائیو میں پانچ ٹیرا بائٹس ڈیٹا محفوظ تھا،
پراسیکیوٹر ڈنکن اٹکنسن کیو سی نے عدالت کو بتایا: ’جب ان ہارڈ ڈرائیوز کی جانچ کی گئی تو ان میں ناقابل تصور جنسی بے راہ روی کی لائبریری پائی گئی۔‘
’وہاں تصاویر اور ویڈیوز دونوں موجود تھے جن میں ملزم کو ان دو ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا جہاں وہ کام کرتا تھا، پہلے سسیکس ہسپتال، جہاں اس نے 1989 سے کام شروع کیا تھا اور پھر ٹنبریج ویلز ہسپتال، جہاں وہ 2010 میں منتقل کر دیا گیا تھا۔‘
ایک پولیس انٹرویو میں فلر نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ان لوگوں کی تصاویر تلاش کرنے کے لیے فیس بک کا استعمال کیا، جن کے ساتھ اس نے مردہ خانے میں بدسلوکی کی تھی۔
فائلوں کی شناخت اور نام دینے کے سلسلے میں، اٹکنسن کیو سی نے کہا کہ مردہ لوگوں کے خلاف توہین آمیز تصاویر کو ملزم نے مردہ خانے سے لیجرز اور لاشوں پر شناختی ٹیگز کا استعمال کرتے ہوئے نام دیے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ملزم نے اعتراف کیا کہ متاثرین کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا اور فیس بک پر بھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ تحقیق جرم کرنے سے پہلے کی بجائے جرم کے بعد کی گئی۔‘
اٹکنسن کیو سی نے کہا کہ ان تصاویر نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ فلر نے یہ حرکتیں ’جنسی تسکین‘ کے لیے کی ہیں نہ کہ ذہنی بیماری کی وجہ سے۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزم کو ان لوگوں کے ساتھ جنسی عمل سے جنسی تسکین حاصل کرنی تھی، جو مر چکے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’لہذا یہ قتل کی ایک وجہ فراہم کرتا ہے، خواہ کتنا ہی منحرف اور نفرت انگیز کیوں نہ ہو، یہ ذہنی بیماری کی وضاحت پر منحصر نہیں ہے، جس نے ملزم کو اپنے ضبط سے محروم کر دیا۔‘
ایک بیان میں مقتولہ نیل کے خاندان نے کہا: ’34 سالوں سے، ایک خاندان کے طور پر، پولیس اور پریس اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ وینڈی کے ساتھ اصل میں کیا ہوا، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کس نے کیا اور اس نے اپنے آخری لمحات کیسے گزارے۔ اب ہم جانتے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’امید ہے، اب ہم غم کرنا شروع کر سکتے ہیں اور درد سے گزر سکتے ہیں اور انہیں خوبصورت، مہربان، فیاض، دیکھ بھال کرنے والی، حس مزاح رکھنے والی لڑکی کے طور پر یاد کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ ان کی ایک مسکراہٹ ہوتی تھی اور سب کے لیے ایک مہربان لفظ۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’گرچہ قصوروار کے اعتراف جرم سے کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ درد اور نقصان ہمیشہ موجود رہے گا، لیکن یہ جان کر اچھا ہے کہ وہ تکلیف دینے یا مزید تکلیف پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔‘
’صرف ہمارے خاندان کے لیے نہیں بلکہ کیرولین کے خاندان اور دوستوں کے لیے بھی جو ان تمام سالوں میں ہمارے ساتھ اسی سفر پر رہے ہیں اور اس شخص سے متاثر ہونے والے دیگر تمام خاندانوں کے لیے، ہم آپ سب کے لیے گہرا دکھ محسوس کرتے ہیں۔‘
ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ کو ’آخرکار انصاف دیکھ کر کچھ سکون ملے گا۔‘
اس کیس کو ’حیران کن‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’جرائم کی گری ہوئی نوعیت عوامی نفرت اور تشویش کا باعث بنے گی۔‘
© The Independent