اداسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا

جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، جمائی کو دیکھ کے جمائی آتی ہے، اسی طرح اداسی بھی وائرل چیز ہے، ایک تو پیٹ نہیں بھرتا اوپر سے جو کچھ آس پاس ہوتا ہے اسے بھی جلا کے راکھ کر دیتی ہے۔

آج کل میں اداس ہوں، بہت دن ہو گئے یار زور زبردستی گزارتے ہوئے، دل کی بات کرنی چاہیے۔

انسان جب لکھتا ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ سامنے والے کو اس سے کچھ فائدہ ہو، یہ کوشش لیکن مروا بھی دیتی ہے کبھی کبھی، یہی ہو رہا ہے میرے ساتھ! ہر بار کام کی بات کرو، بے کار بات کیوں نہیں ہونی چاہیے؟

سو موضوع رکھے ہوئے ہیں کہ بھئی اس پہ بولیں گے کبھی لیکن آج نہیں، آج اداسی کھاتی جا رہی ہے۔

اداسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، آج کا دن اسی کے نام سہی۔ ضروری تھوڑی ہے کہ جب بات کریں، بات سنیں، اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ ہی اٹھانا ہو؟

انتظار حسین صاحب نے ایک جگہ لکھا کہ ناصر کاظمی چائے پیتے پیتے کہنے لگے؛

’میں بھی ایک اخباری بیان جاری کرنا چاہتا ہوں کہ آج میں اداس ہوں۔‘ پھر کہنے لگے کہ بھئی جب سیاست دانوں کے بیان چھپ سکتے ہیں تو یہ خبر کیوں نہیں ہو سکتی کہ ناصر کاظمی آج اداس ہیں؟

واقعی ہو سکتی ہے، بڑے آدمی کی اداسی باقاعدہ ایک خبر کیوں نہیں ہو سکتی؟ اور جب وہ اداسی لازوال شاعری بھی کروا گئی ہو اور جب انتظار صاحب ہی کا قول ہو کہ ’ناصر کاظمی نے اپنے عہد کواداس ہونے کے آداب سکھائے‘ تو خبر بنانے میں کیا حرج ہے؟

ہوتا یہ ہے کہ مرد لوگ اداسی کی بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ کوئی شعر ہوتا ہے ان کا ایکسپریشن، ’میں آج بہت اداس ہوں‘ یہ کون کہتا ہے؟ ایک خوف یہ بھی ہوتا ہے کہ اداسی کا بولو تو وجہ بھی بتاؤ، پھر مذاق اڑواؤ، کچھ نہیں تو آوارہ، کام چور، نالائق یا کسی حسین چہرے کے عشق میں ڈوبے اداس شاعر کا لقب بھی مل جائے گا۔

شاعری لیکن اداس ہی ہوتی ہے، کوئی اچھا شعر خوشی میں کب کہا ہو گا کسی نے؟  اب دیکھیے کیسا شعر ہے؛

باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر

*انتظار صاحب نے لکھا کہ بھئی درودیوار نہ ہوئے کرتا پائجامہ ہو گئے، لیکن پھر یہ بھی کہا کہ سلیم شاہد کے اس شعر جیسا وقت واقعی کبھی کبھی آتا ہے آدمی پر، گھر بیٹھے بیٹھے لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ واقعی دروازوں اور دیواروں کے بیچ لپٹے لپٹائے بیٹھے ہیں۔

شاعری واعری اداسی ہی میں سمجھ آتی ہے بابا، اب جیسے آپ اس وقت اگر نارمل ہیں تو یہ شعر اوپر سے گزرتا ہوا لگے گا آپ کو، لیکن تھوڑے سے بھی مدھم سُروں میں ہیں تو دیکھیں ذرا؛

خاموش کھڑے ہیں، تجھے بس دیکھ رہے ہیں
اور سوچ رہے ہیں کہ یہ خوش رُو بھی بشر ہے؟

کیسی باریک بات ہے! اور سوچ رہے ہیں کہ یہ خوش رو بھی بشر ہے؟ یہ ۔۔۔ ایسا پیارا چہرہ؟ یہ انسان بھی ہو سکتا ہے؟ دل جب جب تعزیہ بنا ہوا کرے، سیماب ظفر کو ضرور پڑھا کریں، ٹھنڈا نہ ہو تو بھلے آئندہ میرا مشورہ کبھی نہ مانیے گا۔

لیکن بات پھر وہی ہے کہ اداسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، جمائی کو دیکھ کے جمائی آتی ہے، اسی طرح اداسی بھی وائرل چیز ہے، ایک تو پیٹ نہیں بھرتا اوپر سے جو کچھ آس پاس ہوتا ہے اسے بھی جلا کے راکھ کر دیتی ہے۔

جگّے کی بات کرتے ہیں، میرے خیال میں یہ اداسی ایک پنجابی فوک گانے سے شروع ہوئی تھی۔۔۔ جگّا جب مرتا ہے تو اس کی ماں بین کرتی ہے اور کہتی ہے؛ جے میں جاندی جگّے نے مر جانا تے اک دی تھاں دو جمدی ۔۔۔ جگیا وے جگیا، سُتی پئی ماں دے کلیجے چھرا لگیا۔

(اگر مجھے پتہ ہوتا کہ جگے نے مر جانا ہے تو میں ایک کی بجائے دو بیٹے پیدا کرتی، جگیا، سوئی ماں کے کلیجے میں جیسے چھرا لگ گیا۔)

اوئے ہوئے، راکھ کر دیا تھا اس بول نے یار، بیس پچیس دن سے اوپر ہو گئے، بات وہی ہے، اداسی مزید اداسی کو کھینچتی ہے۔

جگا ابھی پچھلی صدی کا ایک اصلی کیریکٹر تھا۔ 29 سال کی عمر میں وہ مارا گیا۔ جگے کو سمجھ نئیں آتا تھا کہ امیر کے پاس اتنا سب کچھ کیوں ہے اور غریب بالکل خالی کیسے ہیں۔ اس کی پہلی واردات اپنے چچا کے کھیت سے گنے اکھاڑ کے دوستوں میں تقسیم کرنا تھی۔ پھر جگے نے اپنے علاقے والے پٹواری سے پنگا لیا، کچھ دن بعد پڑوسی جاگیرداروں سے لڑائی ہو گئی، پھر انگریز سرکار سے بھی دشمنی ہو گئی، بیچ میں ایک مرتبہ چار سال کے لیے دشمن اسے جیل بھیجنے میں کامیاب ہو گئے لیکن باہر آنے کے بعد وہ پورا رابن ہڈ تھا، امیروں سے لوٹتا اور غریبوں میں بانٹتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دفعہ اس نے سناروں کے یہاں ڈاکہ ڈالا، وہ خاندان سود پہ غربیوں کو ادھار بھی دیتا تھا، جگے نے سارے کھاتے جلا دیے، کتنے غریب خاندان قرض در قرض سے بچ گئے ۔۔۔ جگا اب ہیرو تھا، آخری دنوں میں وہ پولیس کو بتا کے ڈاکا مارنے جایا کرتا تھا ۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ ڈاکو بننے کے تین ماہ بعد ختم ہو گیا۔

جگے کو اپنے ہی ساتھی لالو نائی نے مار دیا۔

جگا وڈھیا بوہڑ دی چھانویں
نو من ریت پج گئی، پورنا
نائیاں نے وڈ چھڈیا، جگا سورما

لالو نائی کو انگریزوں نے کئی مربعے زمین دی لیکن بعد میں جب وہ کسی مقدمے پر جیل گیا تو ادھر موجود قیدیوں نے اسے مار مار کے ختم دیا۔

جگا تو گیا نا لیکن؟ پھر جگے کی ماں تھی جو کہتی تھی۔۔۔ جے میں جاندی جگے نے مر جانا تے اک دی تھاں دو جمدی ۔۔۔ جگیا وے جگیا، سُتی پئی ماں دے کلیجے چھرا لگیا۔

تو مجھے جگے کی ماں کے لیے اداسی ہے، یا جگے کی موت پہ اداس ہوں، یا میں ناصر کاظمی، انتظار حسین، سلیم شاہد اور سیماب ظفر کا نام لیتا ہوں اور اصل میں پارہ چنار، کرم ایجنسی کی جوان، کم عمر لاشیں دیکھ کر اداس ہوں۔

وہ بھی جواں مرگ تھے، ان کی بھی مائیں ہوں گی، وہ بھی سوچتی ہوں گی کہ یہ خوش رو بھی بشر ہیں؟ انہوں نے بھی اپنا سونا سپرد خاک کیا ہو گا؟


*تذکرہ انتظار حسین بشکریہ محمود الحسن صاحب، فیس بک

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ