ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر جمعرات کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں اب تک ہونے والے ٹرائلز کی تفصیلات طلب کر لیں۔
آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا: ’نو مئی 2023 کے ملزمان کو ملٹری کورٹس منتقل کرنے کی وجوہات پر مبنی انسداد دہشت گردی عدالتوں کے حکم نامے کہاں ہیں؟ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون کالعدم ہی رہی تو سویلین کیا، کسی ریٹائرڈ افسر کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا؟‘
جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقعے پر کہا کہ ’چالان جمع ہونے سے سزا کے فیصلے تک فیئر ٹرائل کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔‘
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے وکیل خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ ’ڈیٹا کے ساتھ جواب دیں کہ کلبھوشن کے علاوہ اب تک کتنے عام شہریوں کا ٹرائل ہوا؟ عدالت نے عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کا مکمل جائزہ لینے کا عندیہ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا: ’ہم چالان جمع ہونے سے سزا ہونے تک کا سارا عمل دیکھیں گے۔ آرٹیکل 10 اے اور نیچرل جسٹس کو بھی دیکھا جائے گا۔ یہ بھی بتایا جائے کہ فوج میں ایف آئی آر میں دفعات شامل کرنے کا طریقہ کار کیا تھا۔‘
’ایف آئی آرز میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں‘
جسٹس نعیم افغان نے ملزمان کی فوج کو حوالگی کے لیے انسداد دہشت گردی عدالتوں کے سپیکنگ آرڈرز سے متعلق استفسار کرتے ہوئے کہا: ’جسٹس عائشہ ملک کا نوٹ ہے کہ فوج کو ملزمان کی حوالگی کی وجوہات کا عدالتی حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی حکم نامہ ہے تو ریکارڈ پر لے آئیں۔ ایف آئی آرز میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں۔ 28 ملزمان کو سزائیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 3 اور 7 کے تحت ہوئیں۔ ترمیم سے پہلے والے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا جائزہ لیں گے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم اگست 2023 میں ہوئی تھی، اس کا اطلاق 9 مئی کے واقعات پر نہیں ہو سکتا۔‘
جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا: ’ملزمان کی حوالگی کا حکم نامہ پیش کر دوں گا۔ ترمیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہونے کی آبزرویشن سے اتفاق کرتا ہوں۔‘
آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی ون میں شامل ’کسی بھی شخص‘ کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا۔
سماعت کے دوران جسٹس نعیم افغان نے یہ نکتہ بھی اٹھایا: ’آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی ون کالعدم ہی رہی تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔ (بریگیڈیئر) ایف بی علی بری ہو جائیں گے۔ کسی ریٹائرڈ افسر کا جاری ملٹری ٹرائل بھی ختم ہو جائے گا۔ اس شق کو شامل کرکے پہلے ریٹائرڈ افسران ملٹری ٹرائل میں لائےگئے۔ اب عام شہریوں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ لگتا ہے شق میں شامل ’کسی بھی شخص‘ کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا۔‘
آئینی بینچ نے سماعت ملتوی کی تو جسٹس جمال مندوخیل نے اختتام پر وکیل خواجہ حارث سے کہا: ’جمعے کو اپنے دلائل ضرور ختم کر لیں۔‘
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’میں دلائل مکمل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘