کچھ کا ٹرائل فوجی عدالت اور کچھ کا اے ٹی سی میں، تفریق کیسے ہوئی؟ جسٹس مظہر

سپریم کورٹ میں سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’نو مئی کے ملزمان کی ایف آئی آر ایک جیسی تھی تو یہ تفریق کیسے ہوئی کہ کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا کچھ کا اے ٹی سی میں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’نو مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا کچھ کا انسداد دہشت گردی عدالت (ای ٹی سی) میں؟‘

جمعرات کے روز ہونے والی سماعت میں آئینی بنچ نے نو مئی کے صرف مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھائے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے کی۔ بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے بھی وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’یہ دائرہ اختیار کون طے کرتا ہے کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا کس کا نہیں؟ کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کیے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔‘

آئینی بینچ کے ایک اور جج جسٹس نعیم اختر افغان نے پوچھا کہ ’خواجہ صاحب نو مئی کے کل کتنے ملزمان تھے؟ جن ملزمان کو ملٹری کورٹس بھیجا گیا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈر تو دکھائیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے نکتہ اٹھایا کہ ’فوج کی تحویل میں لینے کا پراسیس کون شروع کرتا ہے؟ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، ملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے لیکن آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں۔

’محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کوئی عدالت آئین سے متصادم نہیں بنائی جا سکتی۔‘

نو مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ جسٹس اظہر رضوی

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جی ایچ کیو، کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر ماضی میں دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟

’ایک آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو نو مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے ان کے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے، ہمیں ایسے واقعات کا ڈیٹا فراہم کریں۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے خواجہ حارث سے کہا کہ ’ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔‘

کیا نو مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دوران سماعت سوال اٹھایا کہ ’کیا نو مئی کا واقعہ دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہا؟

’اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے: ’انسداد دہشت گردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟

’انسداد دہشت گردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی، پانچ رکنی لارجر بنچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا، بنیادی حقوق ایمرجنسی کی صورت میں معطل ہوئے تھے، آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کے لیے چھیڑا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’اس مقدمے میں تو بنیادی حقوق معطل ہونے کا کوئی تعلق نہیں، پرویز مشرف کے دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔‘

اس موقعے پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے صرف عمل داری معطل ہوتی ہے۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ’موجودہ مقدمے میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے نہ ایمرجنسی نافذ تھی۔‘

وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمل درآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے، آرٹیکل 233 میں بنیادی حقوق معطل کرنے کی بات نہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر مملکت کے پاس اختیار ہے کہ بنیادی حقوق معطل کر سکے، ایگزیکٹیو صدر مملکت کے آرڈر پر عمل درآمد کرواتی ہے، یہ تمام اختیارات ایگزیکٹیو کے ہیں تو کوئی اور کیسے اس طرح کے معاملات دیکھ سکتا ہے۔

’سابق چیف جسٹس غلام محمد مرزا نے وکیل سے کہا تھا دلائل اچھے تھے مگر میں متاثر نہیں ہوا، اس معاملے میں میرا بھی آپ سے یہی شکوہ ہے۔‘

دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ

جسٹس محمد علی مظہر نے نکتہ اٹھایا کہ ’سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہو گا۔ کیا اب کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے۔‘

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’سپریم کورٹ کے مرکزی فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقعے پر کہا کہ ’ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے؟‘

مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔

گذشتہ روز عدالت نے نو مئی کے ملزمان کی رپورٹ طلب کی تھی۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ مجرمان کو صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کے بعد لان میں جانے کی اجازت ہوتی ہے، شام پانچ بجے تک مجرمان باہر رہتے ہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’لان کون سا ہے ڈیتھ سیل والا لان تو نہیں ہے؟‘

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ’نہیں سر یہ وہ والا لان نہیں جو آپ نے دیکھا ہوا ہے۔‘

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مزید بتایا کہ جیل میں ٹک شاپ ہے، کافی وغیرہ بھی پی سکتے ہیں، گھر سے مجرمان کو گدے بھی دیے گئے ہیں۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر کہا کہ ’آپ نے غلط بیانی کی تو ہم جیل اصلاحات کمیٹی سے بھی رپورٹ منگوا لیں گے۔

’اے جی صاحب ہماری ایک کمیٹی بنی ہے ہم اس سے بھی کنفرم کروا لیں گے، میں بھی کے پی کے میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جزل رہ چکی ہوں ہم حکومت کے وکیل ہوتے ہیں ہمیں حکومت کو سپورٹ کرنا پڑتا ہے۔‘

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواباً کہا کہ ’مجھے تیس سال پریکٹس کرتے ہو گئے ہیں میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ ملزمان چائے کافی تک اپنی مرضی سے پیتے ہیں۔‘

نو مئی کے سزا یافتہ قیدی حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ تمام ملزمان کو ہائی سیکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے، ہمیں وکالت نامے پر دستخط کروانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’جیل قواعد کے مطابق سپرٹنڈنٹ سہولیات فراہم کرنے کا پابند ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے بھی کہا کہ ’جیل قواعد کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’ہم سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دے سکتے، ہمیں سب کی سیکیورٹی عزیز ہے۔

’وکالت نامہ پر دستخط کی سہولت نہ ملنے سمیت کسی کو کوئی بھی شکایت ہے تو متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے رجوع کرے۔ ہم اپنے سکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔‘

مزید دلائل کے لیے عدالت نے سماعت جمعے تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان