سپریم کورٹ آف پاکستان میں بدھ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ’اگر جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی، ملٹری کورٹ میں ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں ہے، سوال آرمی ایکٹ کے ارتکاب جرم کے ٹرائل کا ہے۔‘
بدھ کو آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی قیادت میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
وزارت دفاع کے وکیل کو عدالت نے پیر کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن ججوں کے قانونی سوالات کی وجہ سے خواجہ حارث دلائل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوالات کا نکتہ یہی ہے کہ نو مئی 2023 کے کچھ ملزمان کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں کیسے چل سکتا ہے جبکہ بعض کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالتوں میں چلا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت اب جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔
’آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہوگا‘
خواجہ حارث نے آج دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی فیصلوں میں فوجی عدالتیں تسلیم شدہ ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ جرم کے گٹھ جوڑ سے ان کی کیا مراد ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گٹھ جوڑ سے مراد یہ ہے کہ جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا گٹھ جوڑ کے ساتھ جرم کا ارتکاب کرنے والے کی نیت بھی دیکھی جائے گی۔‘
جسٹس امین الدین نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ’ملزم ملٹری ٹرائل میں جرم کی نیت نہ ہونے کا دفاع لے سکتا ہے۔‘
جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ ’ملزم کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر کہا کہ ’نیت کا جائزہ تو ٹرائل کے دوران لیا جا سکتا ہے۔‘
کیا اے پی ایس حملے کے وقت آرمی ایکٹ موجود تھا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ ’کیا سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں گٹھ جوڑ موجود تھا؟‘ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’اے پی ایس حملے کے وقت گٹھ جوڑ بالکل موجود تھا، ایک گٹھ جوڑ یا تعلق کسی فوجی افسر سے دوسرا فوج سے متعلقہ جرم سے ہوتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا اے پی ایس حملے کے وقت آرمی ایکٹ موجود تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت بالکل موجود تھے۔‘
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ فوجی عدالت میں دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟‘
وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ ’ترمیم میں ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی سے ہٹ کر بھی کئی جرائم شامل کیے گئے۔‘
دہشت گردوں کے فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم
دوران سماعت وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اکیسویں ترمیم مخصوص مدت اور حالات میں کی گئی تھی۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا، کینٹ ایریا میں آرمی سکول پر حملہ ہوا تب بھی ٹرائل فوجی عدالت میں ممکن نہیں تھا۔ دہشت گردوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی، عدالتی فیصلے میں دفاع پاکستان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔‘
خواجہ حارث نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے مطابق دفاع پاکستان میں دہشت گردی اور جنگی صورت حال دونوں کا ذکر ہے، زمانہ امن، حالت جنگ اور دہشت گردی کی صورت ملکی دفاع کی نوعیت مختلف ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے گذشتہ سماعت میں جی ایچ کیو اور دیگر تنصیبات پر حملے سے متعلق سوال پوچھا تھا، اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں ان تمام واقعات کا ذکر بھی موجود ہے۔‘
نو مئی ملزمان ٹو ون ڈی ون کے دائرہ میں آتے ہیں؟
وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’21ویں ترمیم جنگی صورت حال کے لیے کی گئی تھی۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ فوجی ٹرائل نہیں کر سکتے تھے۔‘
خواجہ حارث نے جواباً کہا کہ ’ملٹری ٹرائل ہو سکتا تھا آئینی ترمیم کی وجہ کچھ اور تھی، وہ ملزمان سیکشن 2 ون ڈی ون کے جرائم میں نہیں آتے تھے۔ ان ملزمان کو قانون کے دائرہ میں لانے کے لیے آئینی ترمیم کی گئی۔ نو مئی کے ملزمان 2 ون ڈی ون کے دائرہ میں آتے ہیں، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’ملٹری کورٹ کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن قانون میں ترمیم کے لیے مخمل میں لگے پیوند کا جائزہ لینا ہے۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’2 ون ڈی ون کا سیکشن 1967 سے آرمی ایکٹ میں شامل ہے، آج تک کے عدالتی فیصلوں میں اس شق کی توثیق کی گئی، 21ویں ترمیم والے بنچ نے 2 ون ڈی ون کو تسلیم کیا، آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 میں بنیادی حقوق کا جائزہ نہیں ہو سکتا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ’دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیوں پر ٹرائل کہاں چلے گا۔‘ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات پر ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ آئینی ترمیم کے بغیر بھی ایسے جرائم کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل چل سکتا ہے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ’کچھ دن پہلے یہ خبر آئی کچھ لوگوں کو اغوا کیا گیا ان میں سے دو کو چھوڑا گیا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کوئی دہشت گرد تنظیم تاوان کے لیے کسی مسلح شخص کو اغوا کرے تو ٹرائل کہاں چلے گا؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’فرض کریں وہ ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں چل سکتا، سوال یہ ہے کہ اس کا موجودہ کیس پر کیا اثر پڑے گا۔‘
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جمعرات (16 جنوری) کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔