انڈین چاول کی برآمدات کا دوبارہ آغاز، مقابلے کے لیے پاکستان کی کوششیں جاری

وزارت تجارت کے ایک عہدیدار کے مطابق فی الحال یورپی یونین ہی ایسا علاقہ ہے، جہاں ہم قدرے بہتر پوزیشن میں ہیں کیونکہ پاکستانی چاولوں پر ان کے خدشات انڈیا سے آنے والے چاولوں کی نسبت بہت کم ہیں۔

سات جون 2023 کو لی گئی اس تصویر میں وسطی انگلینڈ کے شہر برمنگھم کے علاقے ’بلتی ٹرائینگل‘ کی سونالی سپر مارکیٹ میں پاکستانی چاولوں کے تھیلے فروخت کے لیے موجود ہیں (اے ایف پی)

عالمی منڈی میں چاول کی تجارت کرنے والے سب سے بڑے ملک انڈیا کی جانب سے چاول کی برآمدات پر پابندی ہٹانے کے بعد پاکستان نے اپنی بین الاقوامی تجارت پر اثرات کے پیش نظر اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں، جن میں کچھ جراثیم کش ادویات کے استعمال کے خاتمے سمیت مانیٹرنگ اور ٹیسٹنگ شامل ہے۔

انڈیا نے ستمبر 2022 کے بعد سے چاولوں کی برآمدات کے حوالے سے چند پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، جنہیں ستمبر اور اکتوبر 2024 میں ہٹایا گیا۔

پاکستان کی وزارت تجارت اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے چاول کی برآمدات روکنے کے بعد افریقہ، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں پاکستانی چاول زیادہ مقدار میں فروخت ہوئے جبکہ ملائیشیا، انڈونیشیا، چین اور کینیا سمیت افریقی ممالک میں بھی پاکستانی چاول کی مانگ بڑھ گئی تھی۔

پاکستان نے چاول برآمد کرنے کے لیے ایوری کوسٹ اور سینیگال جیسی نئی منڈیاں بھی دریافت کر لی ہیں۔ گذشتہ برس پاکستان میں اشیائے خورد و نوش کی برآمدات تاریخ میں پہلی دفعہ آٹھ ارب تک پہنچ گئیں اور تقریباً چار ارب ڈالر کے چاول برآمد کیے گئے، لیکن انڈیا کے فیصلے کے بعد اب ان منڈیوں میں پاکستان کے لیے صورت حال تبدیل ہونے لگی ہے۔

پاکستانی وزارت تجارت اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا سے چاول کی یورپی ممالک میں برآمدات ایک اہم جز ہے، جس کا سمجھنا عالمی منڈی میں مقابلے کے لیے اہم ہے اور اس حوالے سے تمام اہم فیصلے کیے گئے۔

ان فیصلوں میں بعض جراثیم کش (پیسٹی سائیڈز) ادویات کو بند کرنا بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق بظاہر یہ عام فیصلہ دکھائی دیتا ہے، لیکن خطے کے دیگر ممالک کی صورت حال اور یورپی یونین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک سٹریٹیجک اقدام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے کنسلٹنٹ و ماہرِ ذراعت ڈاکٹر مبارک احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’انڈیا سے برآمد کیے جانے والے چاول میں جراثیم کش ادویات کی باقیات کی شرح زیادہ ہے اور کچھ عرصہ پہلے یورپی یونین کی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کے بعد یہ 30 فیصد بھی رپورٹ کی گئی، اس لیے انڈین کھیپ یا کارگو کو مسترد کرنے کی شرح پاکستان کی نسبت زیادہ ہے، لیکن حال ہی میں پاکستان سے بھیجے گئے کارگو کے ٹیسٹ میں بھی کچھ 10 فیصد ایسی باقیات رپورٹ ہوئیں۔‘

ان کے مطابق یورپی یونین کے اعتراض کے پیش نظر چاول پیدا کرنے والے تین بڑے ڈویژنز (لاہور، گجرانوالہ، گجرات) میں غیر رسمی طریقے سے 12 قسم کی جراثیم کش ادویات کا استعمال ختم کیا گیا اور چاول کی فصل کے حوالے سے اس کا اطلاق باقی علاقوں میں بھی جلد کیا جائے گا۔

ڈاکٹر مبارک نے بتایا کہ انڈیا سے بھیجے جانے والے چاول کی کھیپوں میں کیڑے مار ادویات کی باقیات کی وجہ سے یورپی یونین کو شدید تحفظات ہیں جبکہ گذشتہ برس اگست سے لے کر اب تک پاکستان سے جانے والی بہت کم کھیپوں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

وزارت تجارت میں معاملات پر عبور رکھنے والے ایک سینیئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فی الحال یورپی یونین ہی ایسا علاقہ ہے، جہاں ہم قدرے بہتر پوزیشن میں ہیں کیونکہ پاکستانی چاول پر ان کے خدشات انڈیا سے آنے والے چاولوں کی نسبت بہت کم ہیں۔

ایگرو ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل اطہر کھوکھر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا تاکہ زمینداروں اور ڈیلرز کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ بین الاقوامی معیار برقرار رکھنا، مال بیچنے اور بہتری کے لیے کیوں اہم ہے۔

حکومت پاکستان نے چاول کے ایکسپورٹرز کو اب اس بات کا پابند کیا ہے کہ مال کو کسی بھی ملک بھیجنے سے پہلے اس کی ٹیسٹینگ یورپ کی لیبارٹریز سے کروانا لازمی ہے اور ٹیسٹ رزلٹ کے بعد ہی برآمدات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

اس حوالے سے وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویر کہتے ہیں کہ ان کی وزارت اَن تھک کوششوں میں مصروف ہے کہ چاول کی برآمد سے متعلق بین الاقوامی شرائط پر پورا اترا جائے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہم نے مانیٹرنگ اور ٹیسٹنگ کا طریقہ کار بہتر کیا، زمینداروں کو بہترین زرعی طریقے اختیار کرنے پر مطمئن کیا اور ان کی تربیت کی گئی، اب ہم تمام صوبوں سے رابطے میں ہیں تاکہ بین الاقوامی معیار کے اہداف کو یقینی بنایا جائے۔‘

وزارت تجارت میں ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے چاول کی بین الاقوامی منڈی میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے کم سے کم برآمدی قیمت کی شرط بھی ہٹا دی ہے، جس سے اب ایکسپورٹرز کو آسانی ہوگی، اگرچہ ان کے مطابق آمدنی کم ہو سکتی ہے۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق ایکسپورٹرز نے چاول کی برآمدات کی مد میں پانچ ارب ڈالر کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکومت اور ایکسپورٹرز کی کوششیں اپنی جگہ لیکن انڈیا نے اس سال کے لیے پہلے سے ہی اپنے ایکسپورٹرز کے لیے کم سے کم برآمدی قیمت کی شرط ہٹا دی تھی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان، انڈیا کی بین الا قوامی منڈی میں دوبارہ موجودگی کو نظر انداز نہیں کر سکتا، خصوصاً ان منڈیوں میں جن میں پاکستان کا مال زیادہ مقدار میں اس لیے فروخت ہوا کہ انڈیا نے اپنے ملک کے اندر قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے خود سے کچھ اشیائے خورد و نوش کی برآمدات پر کچھ پابندیاں عائد کیں اور کم سے کم برآمدی قیمت بھی زیادہ مقرر کی تاکہ چاول کی برآمدات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

ماہرین کے مطابق کچھ حقائق ایسے ہیں، جس کی وجہ سے انڈیا کو عالمی منڈی میں مسابقتی برتری حاصل ہو سکتی ہے، جیسے کہ انڈیا میں چاول کی پیداوار اس سال 145 ملین ٹن ہے جبکہ پاکستان میں پیداوار نو سے دس ملین ٹن متوقع ہے۔

اسی طرح انڈیا میں چاول کی قیمتیں پاکستان کی نسبت کم ہیں جبکہ وہاں 30 سے 35 ملین ٹن چاول خرید کر حکومت محفوظ کر لیتی ہے، جس سے وہ قیمتوں کو مستحکم رکھتی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا کوئی انتظام نہیں اور ایک حد سے زیادہ برآمدات کی صورت میں ملک کے اندر چاول کی قیمتیں حیران کن حد تک بڑھ سکتی ہیں۔

انڈیا میں پابندیوں کا فائدہ چاول کی پیداوار میں پانچویں بڑے ملک پاکستان کو یہ ہوا تھا کہ اس کی گرفت افریقہ، مشرق وسطیٰ اور آسیان کے کچھ ممالک کی منڈیوں میں مضبوط ہو گئی تھی۔ اگر ہم سال کے اختتام تک کی صورت حال کا جائزہ لیں تو نومبر 2024 میں گذشتہ برس کی نسبت چاول کی برآمدات 17 فیصد بڑھی، لیکن اگلے کچھ مہینوں کے متعلق یہ صورت حال واضح نہیں۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین کریم عزیز ملک اس حوالے سے کہتے ہیں کہ چاول کی برآمدات اور متعلقہ صنعت کے لیے اگر ٹیکس کا نظام درست کیا جائے، بجلی سستی کی جائے اور شرح سود میں کمی لائی جائے، تو بین الاقوامی منڈی میں پاکستانی اشیا کی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت