وزیر اعظم شہباز شریف نے بتایا ہے کہ عالمی بینک اگلے 10 سال میں پاکستان کو 20 ارب ڈالرز فنڈ فراہم کرے گا۔
انھوں نے اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے بڑی کامیابی قرار دیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 10 سال میں 20 ارب ڈالرز کا حصول عام آدمی کی معاشی حالت بدل سکتا ہے؟
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق: ’عالمی بینک ہر سال پاکستان کو تقریباً ڈیڑھ سے دو ارب ڈالرز فنڈز فراہم کرتا آیا ہے۔ اگر اس رقم کو جمع کر لیا جائے تو یہ تقریباً 18 سے 20 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
’عالمی بینک کا یہ اعلان کوئی نئی بات نہیں۔ جو رقم ہر سال دی جاتی ہے، اسی رقم کو جمع کر کے ایک بیان دے دیا گیا ہے۔ پچھلے سالوں میں عالمی بینک سے حاصل شدہ رقم نے عام آدمی کی زندگی پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈالا۔‘
ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک عالمی بینک نے پاکستان کو 30 ارب ڈالرز قرض دیا۔ اگر اس سے پاکستان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی تو آگے بھی زیادہ امیدیں لگانا مناسب نہیں۔
’عالمی بینک پاکستان کو دو مد میں فنڈز دیتا ہے: پروگرام ڈویلپمنٹ اور پروجیکٹ ڈویلپمنٹ۔ پروگرام ڈویلپمنٹ میں اس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ کچھ اصلاحات بھی کی جائیں، جس میں پاکستان بری طرح ناکام رہا ہے۔
’پروجیکٹ ڈویلپمنٹ میں مسائل اس لیے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ منصوبے مکمل کر سکے۔‘
ان کے مطابق ’آنے والے سالوں میں قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ زیادہ ہو گا۔ شاید پاکستان عالمی بینک کو وقت پر قرض واپس نہ کر سکے۔ اس صورت میں ان سے فنڈز ملنے کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت اچھا پروگرام ہے۔ عالمی بینک پہلے تین سال کی منصوبہ بندی کرتا تھا، اب وہ اسے 10 سال پر لے گیا ہے۔
’پاکستانی عوام کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہیے۔ یہ قرض ہے جس کا زیادہ حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہو گا۔
’اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت صوبوں کی ذمہ داری ہے، اس لیے زیادہ پیسہ صوبوں کو ہی ملے گا۔ فنڈز انہوں نے دینا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے خرچ پاکستانی بیوروکریسی نے کرنا ہے۔‘
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق بیوروکریسی نے ہی منصوبے بنا کر دینے ہیں۔ اگر بیوروکریسی نیک نیتی سے کام کرے گی تب ہی اس قرض کا پاکستان کو فائدہ ہو گا۔
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ’قرض آ رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالرز کا قرض منظور کروایا ہوا ہے، اسی طرح مزید قرض بھی آتے رہیں گے۔
’یہ معیشت بہتر ہونے کا پیمانہ نہیں۔ عالمی بینک کے چارٹر میں درج ہے کہ اس کا مقصد ممالک کو معاشی ترقی دینا نہیں۔ انھوں نے اپنی شرائط پر قرض دینے ہیں اور سود سمیت واپس لینے ہیں۔ ملک اس وقت ترقی کرے گا جب ملک کا اندرونی معاشی ماحول بہتر ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پانچ یا 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی سے ملک ترقی نہیں کرتے۔ ملکی معیشت اس وقت درست ہو گی جب حکومت پانچ سالہ پلاننگ کمیشن ختم کرے گی۔
’انڈیا نے 2014 میں ہی پلاننگ کمیشن ختم کر دیا تھا اور مارکیٹ کے رجحان کو پلاننگ پر ترجیح دی تھی، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جنوری کوریا، پولینڈ، ہنگری نے بھی کئی سالوں سے پلاننگ کمیشن ختم کر دیے۔ حکومت کا کام پلاننگ کمیشن بنانا نہیں بلکہ سرمایہ کاری کا ماحول بنا کر دینا ہوتا ہے۔
’اس لیے ضروری ہے کہ عالمی بینک کے قرضوں پر خوش ہونے کی بجائے Home Grown اپروچ پر توجہ دی جائے۔ عالمی بینک کے 20 ارب ڈالر قرض کا فائدہ بھی اسی صورت میں ہو سکے گا۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ 20 ارب ڈالرز ملنے کا فائدہ ’عوام کی بجائے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو ہو گا۔ ایک تو بھاری تنخواہوں پر سیاسی بھرتیاں ہوں گی اور دوسری طرف بجلی، گیس، پیٹرول اور ٹیکس میں اضافے کی ذمہ داری بھی عالمی بینک جیسے اداروں پر ڈال کر سیاست دان بری الذمہ ہو جائیں گے۔‘
ان کے مطابق: ’عالمی بینک کے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی موثر نہیں۔ رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی، اس بارے میں رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔
’عالمی بینک کو چاہیے کہ وہ حکومتی اخراجات کم کروانے کے لیے بھی کام کرے۔ پنجاب اسمبلی میں 800 فیصد تک تنخواہیں بڑھا لی گئی ہیں جس کا اثر منصوبوں پر بھی پڑتا ہے۔‘
’وعدوں اور اصل رقم کے حصول میں فرق ہوتا ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے پاکستان کے قیام سے لے کر 2023 تک تقریباً 202 ارب ڈالرز معاونت کے وعدے کیے گئے جن میں سے تقریباً 156 ارب ڈالرز وصول ہوئے۔
’عالمی بینک سے 20 ارب ڈالرز وصول کرنے کے لیے ملکی اشرافیہ ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی کیونکہ ان کے لیے ذاتی مفاد کی اہمیت زیادہ ہے۔‘
انھوں نے بتایا ’عالمی بینک اور دیگر ادارے جو رقم امداد کے لیے دینے کا وعدہ کرتے ہیں، وہ مفت میں نہیں دی جاتی۔ اس پر سود وصول کیا جاتا ہے۔ یہ قرض اتارنا ضروری ہوتا ہے۔
’انھیں رول اوور نہیں کیا جاتا بلکہ وقت پر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کبھی کبھار گرانٹ کی مد میں رقم مل جاتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یہ ایک قرض ہے جو واپس کرنا ہوتا ہے۔
’اگر ورلڈ بینک 20 ارب ڈالر گرانٹ دے اور یک مشت دے تو شاید پاکستان اور عام آدمی کی معاشی حالت بدل سکے گی۔‘
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔