انڈیا کے مشرقی شہر کلکتہ کی ایک عدالت نے ہفتے کے روز 33 سالہ ملزم سنجوئے رائے کو ایک خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے جرم میں مجرم قرار دے دیا ہے۔
یہ واقعہ گذشتہ سال اگست میں پیش آیا تھا، جس نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔ 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کی تشدد زدہ لاش کلکتہ کے ایک سرکاری ہسپتال کے سیمینار روم سے ملی تھی۔ اس بہیمانہ واقعے نے انڈیا میں خواتین کے خلاف تشدد کے دیرینہ مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کیا اور عوامی سطح پر غصے کو جنم دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے سکیورٹی میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ کلکتہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے ان مظاہروں میں حصہ لیا اور ڈاکٹروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
ملزم سنجوئے رائے، جو ہسپتال میں ایک شہری رضاکار کے طور پر کام کرتے تھے، کے خلاف مقدمے کی سماعت تیزی سے مکمل کی گئی۔ عام طور پر انڈیا کی عدالتی کارروائیاں طویل ہوتی ہیں، لیکن اس کیس میں دلائل گذشتہ ہفتے ختم کر دیے گئے تھے۔
عدالت نے سنجوئے رائے کو ریپ اور قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ سزا کا فیصلہ پیر (20 جنوری) کو سنایا جائے گا۔
ملزم سنجوئے رائے نے عدالت میں اپنا جرم ماننے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’مجھے پھنسایا گیا ہے۔‘
جب انہیں جیل کی وین میں عدالت لایا گیا تو مظاہرین کی بڑی تعداد پہلے ہی موجود تھی۔ مظاہرین نے پولیس کی موجودگی میں انہیں پھانسی دینے کے نعرے لگائے۔
مقتول ڈاکٹر کے خاندان نے بھی مظاہرین کے جذبات کی حمایت کی۔ ان کی والدہ نے عدالتی کارروائی کے دوران کہا: ’اگر ملزم کو سزائے موت نہ دی گئی تو عام آدمی کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، اس نے ہماری بیٹی کی زندگی بے رحمی سے چھین لی۔ اسے بھی ایسے ہی سزا ملنی چاہیے۔‘
خاتون ڈاکٹر کی والدہ اور والد، جو عدالتی کارروائی کے دوران موجود تھے، نے سخت سزا کی امید ظاہر کی۔ والدہ نے کہا: ’یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔ ہماری بیٹی نے جو کچھ برداشت کیا، اس کی تلافی صرف سزائے موت کے ذریعے ممکن ہے۔‘