اربوں کے کھنڈر: 9 ارب سے تعمیر پنڈی ہسپتال 20 سال سے ویران

راولپنڈی میں نو ارب روپے سے تعمیر ہونے والے زچہ و بچہ ہسپتال کی تعمیر 2005 میں شروع ہوئی مگر 20 سال گزرنے کے با وجود یہ ہسپتال فعال نہیں ہو سکا اور اب اس کی عمارت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔

24 لاکھ سے زائد آبادی کے شہر راولپنڈی کو گذشتہ دو دہائیوں سے نامکمل زچہ و بچہ ہسپتال کے فعال ہونے کا انتظار ہے جو مکمل طور پر ویران پڑا ہوا ہے۔

2005 سے شروع ہونے والا راولپنڈی کا 130 کنال کے رقبے پر تعمیر شدہ ہسپتال حکومتوں کے آنے جانے کی وجہ سے 20 سال گزر جانے کے باوجود فعال نہیں ہو سکا ہے۔

اپریل 2004 میں اس وقت کے وزیراعظم نے اصغر مال روڈ راولپنڈی میں 200 بستروں پر مشتمل بچوں اور خواتین کے لیے ہسپتال کی منظوری دی جس کا کُل تخمینہ  1.3 ارب روپے لگایا گیا تھا۔

اس منصوبے کے بنیاد گزار شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے سب سے بہترین سائنس دانوں اور آرکیٹیکٹس سے مشاورت کے بعد اس ہسپتال کا ڈیزائن بنوایا جس کی مثال پاکستان میں موجود نہیں مگر حکومتی نااہلی کی وجہ سے اس کا کام مکمل نہیں ہوسکا۔

دوسری جانب حکومتی عہدیدار ہسپتال کو ’جلد‘ مکمل کرنے کا دعویٰ کرتے رہے مگر تاحال یہ ہسپتال فعال نہیں ہو سکا۔

2005 میں ہسپتال کا کام شروع ہوا جو 2011 تک جاری رہا مگر صدر پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والا منصوبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث روک دیا گیا۔

مارچ 2017 میں ایک بار پھر اس ہسپتال کی تعمیر کے لیے جائزہ لیا گیا مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جانے کے ساتھ یہ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گیا۔

2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد راولپنڈی سے منتخب ممبر قومی اسمبلی شیخ رشید احمد ایک بار پھر 2005 میں شروع ہونے والے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے متحرک ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے 5.3 ارب روپے اس کی تعمیرات اور 4.5 ارب روپے ہسپتال کی مشینری کے لیے منظور کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2005 میں 1.3 ارب روپے سے شروع ہونے والا منصوبہ 2018 میں تقریبا نو ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔

مارچ 2022 تک اس ہسپتال کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا جسے اگست میں فعال ہونا تھا مگر پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے ساتھ اس ہسپتال کا کام پھر سے بند ہو گیا جو کہ اب تک فعال نہیں ہوسکا۔

اس 200 بستروں پر مشتمل ہسپتال میں 14 آپریشن تھیٹر سمیت نو مولود بچوں کے لیے علیحدہ وارڈ اور چھاتی کے امراض کے سیکشن بھی بننے تھے۔

اس ہسپتال کی عمارتوں کی تعمیر مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے میں شامل ڈاکٹروں اور سٹاف کے لیے ہاسٹلز تک تعمیر ہو چکے۔

2023 میں پنجاب کی نگران حکومت نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی حکومت سے یہ منصوبہ صوبائی حکومت کے پاس منتقل ہوا مگر پھر اس پر کام شروع نہیں ہو سکا۔

دسمبر 2024 میں پنجاب حکومت کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے اس ہسپتال کا دورہ کیا اور اعلان کیا اس ہسپتال کو اب پنجاب حکومت 200 بستروں سے بڑھا کر 400 بستروں کا بنائے گی۔

زچہ و بچہ ہسپتال کی موجودہ صورت حال

زچہ و بچہ ہسپتال کا تعمیراتی کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے اور اس ہسپتال کی عمارت میں ایئرکنڈیشن کا کام بھی ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ کئی کمروں میں مشینری بھی موجود تھی جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس ہسپتال کی تعمیر کے بعد اس کی نگرانی اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عمارت میں موجود کئی دروازے، کھڑکیاں چوری ہو چکے ہیں اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر بنے ہیں۔

بڑی تعداد میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں اور ویرانی کے باعث عمارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

حفاظت کے لیے لگائے گئے جنگلوں کا لوہا بھی کئی جگہوں سے چوری ہو چکا ہے۔

ہسپتال کے قریب رہنے والے محمد اکمل کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمارت منشیات کے عادی افراد کا گڑھ بنا رہا جو یہاں سے کھڑکیاں، دروازوں کے علاوہ یہاں پر کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچاتے رہے۔‘

زچہ و بچہ ہسپتال منصوبے کو شروع کرنے والے شیخ رشید ہسپتال فعال نہ ہونے پر مایوس

اس منصوبے کو شروع کرنے والے شیخ رشید احمد نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نا اہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اس کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔‘

شیخ رشید احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’سنا ہے یہ منصوبہ پنجاب حکومت نے لے لیا ہے، صوبائی حکومت کرے یا وفاق بس کام مکمل ہونا چاہیے۔‘

سابق وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’اس ہسپتال کے ائیر کنڈیشن کا کام بھی مکمل ہے اور بس مشینری رکھ کر فعال کرنا ہے۔‘

اس منصوبے پر دیگر حکومتوں کی عدم دلچسی اور عوام کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت جاتے ہی پورا نظام خراب ہوگیا اور لوگ اس کا لوہا اور جنگلے تک کاٹ کر لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے منصوبے کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار تک نہیں رکھا گیا ’مگر سنا ہے کہ اب صوبائی حکومت اس میں دلچسپی لے رہی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں منصوبے سیاست کی نذر ہوتے ہیں مگر مجھے خوشی ہوگی اگر پنجاب حکومت اس منصوبے کو مکمل کرے۔‘

شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے سب سے بہترین سائنس دانوں اور آرکیٹیکٹس سے مشاورت کے بعد اس ہسپتال کا ڈیزائن بنوایا جس کی مثال پاکستان میں موجود نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’دنیا میں میں نرسنگ سٹاف کی بہت مانگ ہے اور اسی وجہ سے اس ہسپتال کے ساتھ نرسنگ انسٹیٹوٹ میں رکھا جس میں 400 نرسنگ سٹاف تربیت حاصل کرے گا۔‘

مریم نواز نے اس ہسپتال کا نوٹس لیا ہے: عظمیٰ بخاری

پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور حکومتوں کے آنے جانے سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس ہسپتال کا نوٹس لیا ہے اور جلد از جلد اس کی ادائیگیاں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے اور مریم اورنگزیب کو اس منصوبے کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کر دیا جائے گا۔

اس ہسپتال کا منصوبہ بھی پاکستان میں اربوں کے کھنڈروں میں سے ایک ہے جہاں سالوں سے شروع منصوبے ادھورے پڑے ہیں جنہیں ملکی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنے باوجود فعال نہیں کیا جا سکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت