گدون انڈسٹریل اسٹیٹ، اربوں روپے کا ’صنعتی قبرستان‘

1986 میں قائم ہونے والے گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں اب گنتی کے کارخانے ہیں جو مکمل استعداد کے مطابق چل رہے ہیں۔

حکومت نے اسی کی دھائی میں صوبہ خیبر پختونخوا میں صعنتوں کے فروغ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کے آغاز کا اعلان کیا تھا لیکن آج وہ مختلف وجوہات کی بنا پر کھنڈر بن چکا ہے۔

پشاور سے لمبے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی گیٹ کے راستے ایک چاردیواری میں داخل کی، جہاں پہلی نظر میں ہر طرف زنگ آلود مشینیں اور دوسری ٹوٹی پھوٹی چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر ذہن میں خیال آیا کہ شاید یہ کسی کباڑیے کی دکان ہے، جہاں پرانا سامان بکتا ہو گا۔

خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور سے ضلع صوابی میں گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ تک ہمارے ہم سفر رہنے والے صنعت کار فضل رحیم جدون نے یہ بتا کر حیرت میں مبتلا کر دیا کہ کباڑیے کی دکان جیسا دکھنے والا یہ بڑا احاطہ دراصل ان کی اپنی سٹیل مل کی باقیات ہیں، جو کسی زمانے میں پوری طرح فعال اور منافع بخش کاروبار کا ذریعہ تھی۔

فضل رحیم جدون، جو گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں کارخانہ داروں کی نمائندہ تنظیم کے صدر بھی ہیں، نے لوہے کے کارخانے کی بندش کی وجہ بجلی کے بھاری بلوں کو قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم اتنی مہنگی بجلی برداشت نہیں کر سکتے۔ پروڈکشن کاسٹ اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ منافعے کا سوال ہی نہیں بنتا۔‘

گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں فضل رحیم جدون کی سٹیل مل واحد کارخانہ نہیں، جو بند پڑا ہے اور اس کی مشینیں اور دوسرا قیمتی سامان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہو۔ بلکہ یہاں ماضی میں ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے ایسے سینکڑوں کارخانے جیسے آخری سسکیاں لے رہے ہیں۔

فضل رحیم کے مطابق 1986 میں 9000 کنال پر قائم ہونے والے گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں اس وقت 325 کارخانے موجود ہیں، جن میں سے 177 مکمل طور پر بند ہیں، جب کہ باقی 25 سے 50 فیصد کیپسٹی پر چل رہے ہیں۔ ’یہ ایک صنعتی زون ہے لیکن اس وقت یہاں محض تین کارخانے ایسے ہیں، جو 100 فیصد کیپسٹی کے ساتھ چل رہے ہیں اور اس وجہ ہے کہ ان یونٹس میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کے نظام نصب کیے گئے ہیں۔‘  

انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اس صنعتی زون کے بننے کے بعد یہاں 53 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کی وجوہات 

کبھی خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع اور صوبے سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں افیون (افیم) کی کاشت معمول کی مشق تھی، جسے روکنے کی غرض سے 1986 میں حکومت نے آپریشن کا ٖفیصلہ کیا،۔ جس دوران گولیاں چل گئیں اور کئی جانیں ضائع ہوئیں۔

آپریشن کے نتیجے میں اموات کی وجہ سے مقامی لوگوں کا غم و غصہ عروج پر تھا، جسے کم کرنے کی غرض سے اس وقت کی حکومت نے مذاکراتی جرگے کے سامنے پوست کی کاشت والے علاقے میں صنعتی زون کے قیام کے ذریعے روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کی تجویز رکھی، جو دوسرے فریق نے فوراً مان لی۔

اس طرح خیبر پختونخوا کے سرسبز ضلع صوابی میں صنعتی بستی کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد پوست کی کاشت چھوڑنے کے عوض مقامی آبادیوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا تھا۔

تحصیل ٹوپی کے جس علاقے میں صنعتی بستی قائم کی گئی اس کے نام کی مناسبت سے اسے گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کا نام دیا گیا۔ یہ خیبر پختونخوا کا وہی علاقہ تھا، جو پوست کی کاشت کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔

گدون امازائی انڈسٹریل اسٹیٹ صنعتی میں اندرون اور بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی خاطر اسے کئی مراعات اور رعایتیں دی گئیں، جن میں مختلف ٹیکسوں میں چھوٹ کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں 50 فیصد کی رعایت اور آسان اقساط پر بینکوں سے قرضوں کا حصول شامل تھے۔

انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کی ایک تحقیق کے مطابق گدون صنعتی زون کے 1986 میں قیام کے محض چھ سال میں 115 چھوٹے بڑے کارخانے لگائے گئے، جن میں 14000 مقامی افراد کو بلواسطہ اور 25000 کو بلاواسطہ روزگار دستیاب ہوا۔

گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کی مخالفت

گدون امازئی انڈسٹریل کے قیام کے فوراً بعد پورے ملک میں اس کی مخالفت شروع ہو گئی، جس کی وجہ یہاں قائم ہونے والے کارخانوں کو دی جانے والی مراعات تھیں۔

پنجاب اور کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں سرمایہ کاری کرنے والے کارخانہ داروں کو شکایت تھی کہ مراعات کی وجہ سے گدون صنعتی زون میں پیداواری لاگت بہت کم ہو جاتی ہے، جس کے باعث ان کے لیے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہتا۔

تاہم خیبر پختونخوا عموماً اور گدون صنعتی زون کے کارخانہ دار اس وقت کے صوبہ سرحد کی سمندر سے دوری کو صوبے کے لیے مقامی نقصان (locational disadvantage) قرار دیتے، جو ’یہاں کی صنعت کے لیے مسابقت کے قابل نہیں چھوڑتا۔‘

گدون امازئی صنعتی زون میں سرمایہ کاری کرنے والے کارخانہ داروں پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا تھا کہ اس صنعتی بستی کے نام پر بیرون ملک سے ٹیکس کی چھوٹ کے ساتھ مشینیں منگوا کر ملک کے دوسرے حصوں میں لگائی جاتی ہیں، جس سے علاقے یا انڈسٹریل اسٹیٹ کو فائدے پہنچنے کے بجائے محض چند افراد کو مالی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔

گدون صنعتی زون کا زوال 

ملک بھر سے شدید مخالفت کے باعث آخر کار 1992 میں گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ کو دی گئی مراعات واپس لے لی گئیں اور تحقیق کے مطابق آئندہ چند مہینوں میں یہاں کے 30 کارخانے بند ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فضل رحیم کا کہنا تھا کہ 1992 میں انہوں نے تین ارب روپے کی سرمایہ کاری سے سٹیل مل قائم کی، جسے وہ مراعات کے بغیر بھی 2022 تک چلاتے رہے۔ ’لیکن اب بالکل بھی ممکن نہیں ہو پا رہا۔ میرا کارخانہ بند ہے اور زیرو یونٹس استعمال کے باوجود میرا 37 لاکھ روپے کا بل آیا ہے۔‘

فضل رحیم مراعات کی واپسی کو گدون صنعتی زون میں کارخانوں کی بندش کی وجہ قرار تو دیتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ’2020 کی دہائی کے شروع تک کافی سارے کارخانے موجود تھے، جن میں سے بڑی تعداد گذشتہ تین چار سالوں کے دوران بند ہوئے۔ اور یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بجلی اور گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ اور ملک میں معاشی بحران نے عام شہریوں کی قوت خرید بری طرح کم ہوئی، جس نے کارخانوں کی پیداواری استعداد کو متاثر کیا۔ 

مزدوروں کی حالت زار  

گدون صنعتی زون میں صنعتیں بند ہونے سے مزدور سب سے زیادہ پریشان ہیں۔

گدون لیبر فیڈریشن کے صدر شیر اعظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بند ہونے والے کارخانوں کے مزدور تو بےروزگار ہو چکے ہیں لیکن جو کارخانے کسی حد تک کام کر رہے ہیں وہاں بھی ورکرز کے حالات کار بھی بہتر نہیں ہیں۔

’ایک تو کارخانوں میں مزدور نہ ہونے ے برابر ہیں، جب کہ انہیں کم از کم سرکاری اجرت بھی نہیں ادا کی جا رہی۔‘

انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کی 2015 کی تحقیق کے مطابق کارخانے بند ہونے کی وجہ سے 34 فیصد سے زیادہ مزدور بے روزگار ہوئے، جن میں زیادہ نے دوبارہ پوست کی فصل کاشت کرنا شروع کر دی ہے۔

شیر اعظم نے کے خیال میں حکومتی پالیسیوں نے اس صنعتی زون کو برباد کردیا ہے۔ ’آئے روز مزید کارخانے بند ہو رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔‘

چالو کارخانے، امید کی کرن 

گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ میں آدھے سے زیادہ کارخانے تو بند ہیں لیکن بعض صنعتی یونٹس ان سارے چیلنجز کے باوجود کام کر رہے ہیں۔

انہی میں سے ایک پی وی سی پائپ بنانے کا کارخانہ ہے، کم کیپیسٹی پر کام کرنے کے باوجود ابھی تک چالو ہے۔ 

اس کارخانے کے آپریشن منیجر عاصم علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم مقامی و بین الاقوامی چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ضرورت کے مطابق کارخانہ چلا کر مال بنایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ کرونا وبا کی وجہ سے بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے جب کہ عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اضافہ بھی ایک چیلنج ہے۔

عاصم نے بتایا کہ ’ہمارے کارخانے میں تقریباً 150 مزدور کام کرتے تھے جو اب کم ہو کر محض 50 رہ گئے ہیں۔ اب ہم اتنا ہی برداشت کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت