اسرائیل نے اپنی چار خاتون فوجیوں کے بدلے 200 فلسطینی رہا کر دیے

غزہ میں فائر بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں حماس نے چار اسرائیلی خواتین فوجیوں جبکہ اسرائیل نے 200 فلسطینیوں کو رہا کر دیا۔

اسرائیل نے غزہ فائر بندی معاہدے کے تحت 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا۔

مصر کے سرکاری  ٹی وی کا کہنا ہے کہ رہا ہونے والے 70 فلسطینی قیدیوں کو غزہ کی پٹی یا مغربی کنارے میں واپس جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اے پی


اسرائیلی شہری کو رہا نہ کیا تو فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے نہیں دیں گے: اسرائیل

اسرائیل نے ہفتے کو کہا ہے کہ جب تک حماس کے ہاتھوں بنائے گئے قیدیوں میں سے ایک، آربیل یہود، کو رہا نہیں کر دیا جاتا وہ فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ یہود کو غزہ فائر بندی معاہدے کے تحت ہفتے کو رہا کیا جانا ہے۔


چار خواتین فوجی اسرائیل کے حوالے

حماس نے آج چار خواتین اسرائیلی فوجیوں کو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے حوالے کر دیا۔

چاروں خواتین کو ایک بڑے ہجوم کے درمیان غزہ شہر میں ایک پوڈیم پر لے جایا گیا جہاں حماس کے مسلح اہلکاروں نے انہیں حفاظتی حصار میں گھیرے رکھا۔

حماس نے غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کے تحت سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے قیدی بنائی گئی چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کرنے کے لیے ہفتے یعنی آج کا دن مقرر کیا تھا جس میں 200 فلسطینی قیدیوں کے دوسرے گروپ کو بھی رہا کیا جائے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے جمعے کو تصدیق کی کہ اسے خواتین قیدیوں کے ناموں کی فہرست موصول ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز چار خواتین اسرائیلی قیدیوں کے بدلے اسرائیل کی طرف سے 200 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے جن میں سے 70 کو غزہ اور مغربی کنارے سے باہر بھیج دیا جائے گا۔

قبل ازیں حماس نے ہفتے کے روز 200 فلسطینی قیدیوں کی فہرست بھی جاری کی تھی۔

اسرائیلی قیدی اور لاپتہ خاندانوں کے فورم کے مطابق جن خواتین کو رہا کیا جانا ہے ان میں کرینہ ایریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور لیری الباگ شامل ہیں۔

الباگ قید میں رہتے ہوئے 19 سال کی ہو گئی ہیں جبکہ باقی سب اب 20 سال کی ہو چکی ہیں۔

یہ تبادلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کے ایک نازک معاہدے کا حصہ ہے جو گذشتہ اتوار کو نافذ ہوا اور جس کا مقصد تنازع کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

ثالث قطر اور امریکہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے چند دن پہلے معاہدے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے مہینوں کے بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اسے نتیجہ خیز بنانے کا سہرا اپنے سر باندھا تھا۔

حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے جمعہ کو ٹیلی گرام پر کہا کہ ’قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر، القسام بریگیڈ نے کل چار خواتین فوجیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ اسے یہ نام ثالثوں کے ذریعے موصول ہوئے ہیں۔

فلسطینی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ رہائی دوپہر 10 جی ایم ٹی یعنی پاکستانی وقت کے مطابق تین بجے شروع ہو سکتی ہے، حالانکہ حماس اور اسرائیل نے متوقع اوقات کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

اسرائیل کی جیل سروس کے مطابق رہا کیے گئے فلسطینیوں میں سے کچھ غزہ جائیں گے اور باقی مقبوضہ مغربی کنارے واپس جائیں گے۔

غزہ میں، ایک سال سے زائد جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے خاندان اپنے گھروں کو لوٹنے کے خواہاں تھے، لیکن بہت سے لوگوں کو صرف ملبہ ملا جہاں کبھی مکانات تھے۔

ایک بے گھر خاتون تھیقرہ قاسم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اگر ہم نے واپس جانے کے بارے میں سوچا بھی، تب بھی تباہی کی وجہ سے ہمارے لیے خیمے لگانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘


تین مراحل

فائر بندی معاہدے پر تین مرحلوں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔

پچھلے اتوار کو شروع ہونے والے پہلے، 42 روزہ مرحلے کے دوران، اسرائیل کی جیلوں میں قید تقریباً 1900 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 33 اسرائیلی قیدی جو اسرائیل کا خیال ہے کہ اب بھی زندہ ہیں واپس کر دیے جائیں گے۔

تین قیدی خواتین ایملی ڈیماری، رومی گونن اور ڈورون سٹین بریچر پہلے ہی گھر واپس جا چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بدلے میں 90 فلسطینیوں کو رہا کیا گیا، جن میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ افراد تھے۔

اگلے مرحلے میں جارحیت کے مزید مستقل خاتمے کے لیے بات چیت کی جانی چاہیے، جب کہ آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو اور یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی کو دیکھنا چاہیے۔

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران، حماس نے 251 یرغمال بنائے، جن میں سے 91 غزہ میں ہیں جبکہ 34 کے اسرائیلی فوج نے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔

سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، حملے کے نتیجے میں 1210 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام اسرائیلی شہری تھے۔

اسرائیل کے جوابی ردعمل میں غزہ میں کم از کم 47 ہزار 283 افراد جان سے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ حماس کے زیر اثر علاقے کی وزارت صحت کے اعداد و شمار ہیں جنہیں اقوام متحدہ قابل اعتماد سمجھتا ہے۔

شمال کی جانب واپسی

قطر میں مقیم حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے جمعے کو اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ کی وجہ سے جنوبی غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو ہفتے کی رہائی کے بعد شمال کی طرف واپسی شروع کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

فائر بندی شروع ہونے کے بعد سے امداد کے سینکڑوں ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں، لیکن تباہ شدہ علاقے میں اس کی تقسیم بدستور ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

ضرورتیں بہت زیادہ ہیں، خاص طور پر شمال میں، جہاں اسرائیل نے فائر بندی کے موقع تک ایک بڑا آپریشن جاری رکھا۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھوک سے متاثرہ عارضی پناہ گاہوں میں جو سابقہ ​​سکولوں، بمباری سے تباہ شدہ مکانات اور قبرستانوں میں قائم کیے گئے ہیں، سینکڑوں ہزاروں کے پاس سردیوں کی بارشوں اور تیز ہواؤں سے بچانے کے لیے پلاسٹک کی چادر تک نہیں ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگلے مرحلے میں، دونوں فریق بقیہ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کریں گے، جن میں فوجی، دیگر مرد بھی شامل ہیں، اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا پر بات چیت کریں گے، جو 15 ماہ کی لڑائی اور اسرائیلی بمباری کے بعد بڑی حد تک کھنڈرات میں پڑا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا