غزہ میں اسرائیل کی جنگ 15 ماہ کے بعد جنوری 2025 کو اپنے انجام کی طرف بڑھ گئی ہے۔ اس کا یہ انجام اس معاہدے کے نتیجے میں ہوا ہے جو اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے درمیان ثالثوں کی مدد سے ہوا ہے۔
معاہدے کے دو اصل فریق اسرائیل اور حماس ہیں۔ اسرائیل نے اس معاہدے پر ثالث ملکوں کو اپنی آمادگی سے آگاہ کر دیا اور بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو کئی گھنٹوں تک حماس کی طرف سے سگنل کا انتظار رہا۔ اس دوران ایسے بھی محسوس ہوا کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرنے میں دیر لگا رہا ہے۔ اس دیری سے پیدا ہونے والی اسرائیلی تشویش کا اظہار نتن یاہو کے دفتر نے 15 جنوری کو رات گئے ایک بیان میں بھی کیا کہ ’ابھی تک حماس نے معاہدے کے متن میں دی گئی تجاویز کا جواب نہیں دیا ہے۔‘
اس معاہدے کی تفصیلات اور کئی جزئیات بھی سامنے آ چکی ہیں۔ یقیناً ان سطور میں ان تفصیلات کی اہمیت کے پیش نظر ذکر ہو گا مگر شروع میں کچھ ایسی باتیں جو اس معاہدے سے پہلے کے حالات کو سمجھنے کو تیار ہیں۔ تاکہ حقائق کے ساتھ آگے کا سفر ممکن رہے۔
سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی یہ جنگ 15 ماہ سے زیادہ جاری رہی ہے مگر سال 2024 کے ابتدائی مہینوں میں ہی اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی اور سرپرست امریکہ کے فوجی و سفارتی اعلیٰ حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔ اسرائیل کے لیے یہ جنگ جاری رکھنا محال ہو سکتا ہے، اس تاثر کا اظہار پچھلے سال ماہ مارچ میں بالعموم امریکی حکام کرنے لگے تھے۔
دوسری جانب اس تناظر میں امریکہ کی کوشش یہ رہی کہ اسرائیل کو اس جنگ کے لڑنے کے قابل بنانے کے لیے مزید جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ سفارتی و عسکری میدانوں میں کر گزرا جائے۔ مگر اسرائیل کی اس جنگ کو پھیلنے نہ دیا جائے۔ اسرائیل اس سے مزید الجھ جائے گا اور مشکلات بڑھ جائیں گی۔
اس تجربے کی بنیاد پر امریکی حکام اسرائیل کو رفح پر حملے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی جو بائیڈن انتظامیہ نے از خود جنگ بندی معاہدے کے لیے ایک فارمولہ تیار کرنا شروع کر دیا۔
امریکہ کے عسکری و سفارتی تجزیہ کاروں کی یہ بھی کوشش رہی کہ جنگ لبنان کی طرف بھی وسعت اختیار نہ کرے اور کسی طرح اس جنگ کو غزہ کے اندر تک اسرائیل کو رکھنے تک محدود رکھا جائے۔ اس سلسلے میں بھی اسرائیل کی وہ ’ضرورتیں‘ پوری کر دی جائیں اور کسی طرح غزہ سے اسرائیل کو فتح مند نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے۔
تین امریکی اقدامات اسی پس منظر میں تھے۔ اسرائیل رفح پر حملہ نہ کرے۔ لبنان تک جنگ کو پھیلانے سے رکا رہے۔ غزہ میں اسرائیل کی فضا و سمندر سے مدد کی جائے۔ نیز سفارتی میدان میں اسرائیل کو درپیش ہونے والے چیلنجوں کا توڑ کیا جاتا رہے۔
اس سلسلے میں امریکہ نے کچھ عملی اقدامات بھی کیے۔ رفح پر حملے سے رکنے کے لیے علامتی طور پر ہی سہی اسرائیل کو محدود تعداد میں بموں کی ترسیل روک دی۔ لبنان کی حکومت اور اسرائیل کے درمیان معاملات سیدھے رکھنے کے لیے امریکی نمائندے آموس ہوچسٹن کو فعال کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر غزہ سے کڑی سمندری حدود میں امریکی بحریہ کی سرگرمیوں کو فعال کرتے ہوئے امداد کے نام پر ایک عارضی بندرگاہ بھی قائم کر دی۔ جبکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کو مکمل حمائت دیے رکھی۔ لیکن اسرائیل کو ’فیس سیونگ‘ دینے کے لیے صدر جو بائیڈن نے ایک مرحلہ وار جنگ بندی کا فارمولہ بھی پیش کر دیا۔
15 جنوری کو سامنے آنے والے معاہدے کے ساتھ ہی یہ سوال اٹھنا اور بحث شروع ہونا بھی فطری امر ہے کہ اس معاہدے سے کامیابی کس کو ملی؟ شکست کس کے نام ہوئی؟ اس پر آنے والے دنوں میں امریکی و یورپ کے حکومتی ایوانوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں بحثیں ہوں گی۔ دور کی کوڑیاں لائی جائیں گی۔
خود ہمارے ایشیائی ذرائع ابلاغ اور قائدین سیاست بھی اپنے اپنے انداز سے نکتہ آفرینیاں کریں گے۔ ان کا انتظار بھی رہے گا۔ لیکن ان سطور میں چند بنیادی نکات حوالے کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ آنے والے دنوں کی سفارتی، سیاسی اور سماجی مہمات کی آندھی سے پہلے کچھ حقائق بہرحال قارئین کے پیش نظر رہیں۔
امریکہ اسرائیل کا ازلی ہی نہیں، سب سے بڑا اتحادی و سرپرست ہے۔ غزہ کی جنگ میں بھی اس نے اگر اسرائیل کی مدد نہ کی ہوتی تو اسرائیل کا حلیہ کم از کم آج والا نہ ہوتا۔
اس امریکہ نے سلامتی کونسل میں کم از کم تین بار جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ لیکن بالآخر س جنگ بندی کے لیے جتنی دوڑ امریکی حکومت نے لگائی اور آنیاں جانیاں اٹھائی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ یہ دوڑیں کیوں لگی ہیں؟
اس بارے میں ایک حوالہ 77 سالہ امریکی خاتون تاریخ دان جن کی شہرت کا ایک حوالہ یہود مخالف خصوصی ایلچی کا بھی رہا ہے۔ ان کا نام ڈبیورا ایستھر پسیٹڈ وہ 15 جنوری کو اس جنگ بندی معاہدے کے بعد چیخ اٹھی ہیں۔ وہ چیخ اٹھی ہیں 'ہم نے یہ جنگ جیتی نہیں ہے۔‘
اسرائیلی کابینہ کے اہم رکن اور وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ اس معاہدے کے اعلان سے محض چند گھنٹے قبل یہ پکار پکار کر کہتے رہے، ’یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے تباہی ہو گا۔‘ اسرائیلی کابینہ کے ایک اور اہم وزیر اتیمار بین گویر ہیں۔ اسرائیل کی داخلی سلامتی کے وزیر ہونے کی وجہ سے اسرائیلی اینٹیلی جنس کی طرف سے ملنے والی معلومات اور جائزے ان کی نظر سے بلاشبہ اوجھل نہیں ہو سکتے۔ ان ساری سہولتوں کی بنیاد پر یہ وزیر برائے داخلہ امور نتن یاہو کو 15 جنوری کی صبح تک خبردار کرتے رہے کہ ’حماس کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جائے۔ اگر معاہدہ کیا تو حکومت سے الگ ہو جاؤں گا۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو بھی کوئی آسانی سے اس طرف آنے والے تو بہرحال نہیں تھے۔ انہوں نے 15 ماہ تک اپنی ریاست کو جنگ میں جھونکے رکھا ہے۔ بدترین معاشی تباہی برداشت کی ہے۔ وہ 15ماہ تک غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی بےبسی اور ہلاکتوں سے بھی تجاہل عارفانہ برتتے رہے۔ ان کے لواحقین کا اس ساری جنگ کے دوران تل ابیب کی سڑکوں پر ہفتہ وار احتجاج نظر انداز کرتے رہے اور حماس کے ساتھ معاہدے سے گریزاں رہے۔
اگرچہ ان کے سابق وزیر دفاع اور جنگی جرائم میں ان کے سب سے زیادہ قریبی ساتھی یوآو گیلنٹ بھی واضح مؤقف رکھتے تھے کہ ’جنگ یرغمالیوں کی رہائی کا واحد طریقہ نہیں ہے۔ حماس سے ڈیل کرنا ہو گی۔‘
یوآو گیلنٹ تو یہاں تک کہہ چکے تھے کہ ’سارا بوجھ فوج پر نہ ڈالا جائے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کچھ اور کوششیں بھی کی جائیں‘ لیکن نتن یاہو جنہوں نے 2023 میں کہا تھا، ’حماس کا وجود نہیں رہے گا۔‘ 2025 پر میں اسی حماس کے ساتھ معاہدہ ہونے کے لیے 15 جنوری کو اپنے دفتر میں حماس کے جواب کے لیے بے چین بیٹھے تھے۔
گویا حماس 2025 تک بھی پورے مزاحتمی قد کاٹھ اور نظریاتی طمطراق کے ساتھ اسرائیل کے سامنے ایک مکمل فریق کے طور پر موجود ہے۔
اس تبصرے اور تجزیے سے گریز کے ساتھ کہ شکست کس کی ہوئی اور فتح مندی سے کون بہرہ ور ہوا۔ اسرائیل اور حماس کے ظاہر کردہ ان اہداف کا ذکر ضروری ہے جو اس کے قائدین کے بیانات کی صورت سامنے آتے رہے۔ پہلے اسرائیل کی بات کر لیتے ہیں۔
اسرائیل نے تین بنیادی اہداف غزہ جنگ کے پس منظر میں جنگ کے پہلے چھ ماہ تک تواتر کے ساتھ بیان کیے۔ البتہ بعد ازاں رستے کی تھکن دیکھ کر اسرائیلی قیادت کو سمجھ آنے لگی تھی، اس لیے ان پر زور دے کر اور انہیں نمایاں کر کے بیان کرنے کا سلسلہ جاری ماند پڑ گیا۔
تین اسرائیلی اہداف:
- اس وقت تک جنگ نہیں روکیں گے جب تک یرغمالی رہا نہیں کرا لیتے۔
- حماس کا خاتمہ نہیں کر لیا جاتا
- غزہ سے آنے والے وقتوں میں ایسے کسی خطرے کا امکان ہی ختم نہیں کر دیا جاتا۔
اسرائیل کی بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس 15 جنوری 2025 کو کیے گئے اس جنگ بندی معاہدے کا ذکر کرنے یا اس کے ارکان کی تمہید باندھنے کے لیے ان تینوں اہداف میں سے کسی ایک کے حاصل کر لینے کا فخر موجود نہیں تھا۔ اسی لیے تو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بالآخر معاہدہ کرنا پڑا۔ حماس کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔ حماس کے مطالبات اور شرائط کو قبول کرنا پڑا۔ اسی خطرے کے مستقبل میں خاتمے کے تیسرے ہدف کے حصول کی بات تو وزیر خزانہ سموٹریچ اس معاہدے کو اسرائیل کی تباہی قرار دے چکے ہیں۔
حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے اہداف کا احوال اس کے میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے بیانات میں اس طرح ہوتا رہا۔ اولاً یہ کہ اس کے پاس اپنے عرب اور اسلامی برادران کو اسرائیل کے قریب جانے اور اسے تسلیم کرنے سے روکنے کے لیے کوئی اور آپشن نہ بچی تھی۔ اس لیے اس نے پورے غزہ کی طرف سے اسرائیل اور اس کے ساتھ ’نارملائزیشن پر خودکش حملہ‘ کر دیا۔ بلاشبہ حماس کے اس حملے سے غزہ کی تباہی اور قربانی تو ایسی ہی رہی کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ مگر سعودی عرب اور پاکستان ایسے اہم اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے دباؤ کی فضا سے ضرور نکل آئے۔
حماس کے میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے بیانات اور دعوؤں میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ اس حملے کے ذریعے انہوں نے مسئلہ فلسطین کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کا فیصلہ کیا تھا کہ بصورت دیگر یہ اہم معاملہ پس پشت چلا گیا تھا۔ بلاشبہ آج مسئلہ فلسطین جس قدر عالمی برادری کے سامنے اجاگر ہو چکا ہے ماضی کی تین چار دہائیوں میں اس کی امید باقی نہ رہنے دی گئی تھی۔
1993 کے اوسلو معاہدے کے بعد بے رنگ اور بے اثر قسم کی فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے علاوہ ایک ایک کر کے مسلم و عرب ملکوں کا اسرائیل کو تسلیم کرتے جانے کی طرف مائل ہو جانا۔ فلسطین کاز کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا تھا۔ سات اکتوبر کے بعد جب اپریل مئی میں اسرائیل اور اس کے سرپرست و اتحادی سخت مشکل میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، یورپ کے تین ملکوں نے فلسطینی ریاست کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
حماس نے 15 ماہ سے زائد کی اس جنگ میں بےشمار اور بےپناہ قربانی دے کر اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل کونسل کے اجلاس میں فلسطینیوں کا ایک زندہ و جاوید ایشو کے طور پر ایسے سامنے آیا کہ باہم عالمی برادری کا دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتا ہوا نظر آنے لگا۔ امریکہ اور یورپ کے تمام بڑے شہروں ہی نہیں ان ملکوں کی جامعات کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات میں جس بیداری کی لہر سامنے آئی اس نے پورے عالمی نظام کی کھوکھلی جڑوں کو ہلانا شروع کر دیا ہے۔
طوالت سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اس ابتدائی ردعمل کا حوالہ کافی ہو گا جس میں انہوں نے سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے کی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیل سمیت اس کے سارے سرپرستوں کو یاد دلایا کہ ’یہ سب اچانک نہیں ہو گیا۔‘
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش کا یہ ایک جملہ پوری دنیا کے بے ضمیروں کے لیے ایک تازیانے سے کم نہ تھا۔
گویا حماس نے 15 ماہ سے زائد کی اس جنگ میں بےشمار اور بےپناہ قربانی دے کر کم از کم یہ دونوں اہداف حاصل کر لیے ہیں۔
حماس نے اسرائیل اور اس کے سرپرست و اتحادیوں کی تمام تر اسلحہ سامانی کے مقابلے گھریلو ساختہ اسلحے کے ذریعے ایسی دلیری و بہادری دکھائی ہے کہ سب کو پسپا ہونا پڑا۔ کسی کو جنگی محاذ سے اور کسی کو سفارتی محاذ سے۔
اس کامیابی کو فی الحال 15 اگست 2021 کو کابل میں نظر آنے والے منظر نامے سے تو نہیں جوڑا جا سکتا کہ افغان طالبان کے ساتھ ظاہراً نہ سہی باطناً پاکستان کے سیکولر قسم کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی مشہور زمانہ ’ڈبل گیم‘ کا بڑا دخل تھا۔ اور بھی قوتیں اپنے اپنے انداز میں کچھ حصہ ڈال رہی تھیں۔ مگر غزہ تو ایک زیر محاصرہ پٹی تھی، جہاں اسرائیل یکطرفہ بمباری کیے جا رہا تھا۔ اس کے باوجود 15 جنوری 2025 کا معاہدہ لاس اینجلس کی آگ سے زیادہ طاقت سے سامنے آ گیا۔
اس 15 جنوری کے اسرائیل حماس معاہدے کے بعد اسرائیل کے لیے کیا پیغام ہے؟ اس کے سرپرستوں کے لیے کیا سبق ہے؟ اسرائیل کے کسی مجہول اتحادی یا دوست اور تعلق و شراکت دار کے لیے کیا معنی ہیں؟
اس کو بیان کرنے کے لیے بھی اختصاراً اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کے اس تاریخی اعتراف کام کا حوالہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’حماس ایک نظریہ ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ ہم حماس کو مٹانے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں ریت جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم کوئی متبادل پیش نہ کر سکے تو حماس پھر سے ہمارے ساتھ ہی موجود ہو گی۔‘
دلچسپ بات ہے کہ جب 19 جون 2024 کو ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے بطور فوجی ترجمان یہ بیان دیا تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کیے گئے وضاحتی بیان میں اس فوجی ’اعتراف‘ کو مسترد کر دیا گیا۔ جواب الجواب میں اسرائیلی فوج نے پھر کہا، ’ہگاری نے حماس کو ایک نظریے کے طور پر بیان کیا ہے۔ جو واضح ہے اور بالکل صاف بات ہے۔‘
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی دراصل کسی درست فیصلے اور سمت کی طرف بڑھنا ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے جس حقیقت کو 15ماہ کی جنگ کے بعد تسلیم کیا ہے۔ اسرائیل کے علاوہ قوتوں نے اسے یہ پہلے باور کرانا شروع کر دیا تھا۔
اب ایک راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس معاہدے پر بھرپور پورے صدق دل کے ساتھ عمل کیا جائے۔ جیسا کہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ’اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کو جلد مکمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی جواز فلسطینی عوام پر مسلط کی گئی تباہی اور ہلاکتوں کو درست قرار نہیں دے سکتا ہے۔‘
دوسرا راستہ وہ ہے جو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے 16 جنوری کی صبح تین بجے کے بعد اپنے دفتر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اجاگر کیا ہے۔ ’اسرائیل حماس کی طرف سے دی گئی فلسطینی اسیران کی رہائیوں کے لیے دی گئی فہرست کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‘
بلاشبہ وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی تاریخ اسرائیل سے زیادہ اچھی کس کی ہو گی۔ اسرائیل کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں رویے سے لے کر اوسلو معاہدے تک اور بعد ازاں تازہ ترین مثال لبنان کے ساتھ 27 نومبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے تک میں ہر جگہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزیوں میں پہل کرتا ہے۔
اس لیے اگر غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے پر عمل معاہدے کی روح کے مطابق نہ کیا گیا اور اتوار کے روز سے عمل کرنے سے پہلے ہی اس طرح کی ویٹو کرنے والی مینگنیاں دودھ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے خطرے میں جھونکے رکھنے کے مترادف ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے تازہ خیالات کے اظہار میں جو دعویٰ کیا ہے اگر یہ درست ہے کہ ’حماس کے جتنے لوگ مارے گئے اس نے اتنے ہی مزید بھرتی کر لیے ہیں،‘ تو یہ اسرائیل کے لیے پہلے سے خطرناک بات ہو گی۔
امریکہ اور وہ یورپی ممالک جنہوں نے اب تک اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کے لیے عالمی رائے عامہ اب تیار نہیں ہو گی۔ امریکہ و یورپ میں اسرائیلی قیادت کا جو خونی چہرہ غزہ جنگ نے پیش کیا ہے کہ 46707 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں زیادہ بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اس پر مستزاد بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں حکم اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے جنگی جرائم کے سلسلے میں وارنٹ گرفتاری عالمی رائے عامہ کے لیے ردعمل ظاہر کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔
اس قدر تاخیر سے ہونے والے معاہدے کو محض 20 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف وفاداری میں نتن یاہو کی شرکت ممکن بنانے و دیگر اسرائیلی حکام کے لیے اظہارِ اپنائیت و قبولیت کا موقع بنانے کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہو گا۔ پوری وسعت نظری اور وسعت قلبی کے ساتھ اس معاہدے پر عمل کرنا مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے لیے بھی اہم ہے۔
جس طرح صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کے کروانے کا کریڈٹ اپنے نام کرنے میں مقابلے کا تاثر دیا ہے، اس پر عمل میں بھی اسی تیزی اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ جو نو منتخب امریکی صدر کی دنیا کے ساتھ بالعموم اور مسلم دنیا کے ساتھ بالخصوص نئی اور اچھی شروعات کے لیے ضروری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔