اسرائیل کی طرف سے سات اکتوبر 2023 سے غزہ پر بھرپور جارحیت نے گھروں، ہسپتالوں، درسگاہوں اور دیگر عمارتوں کو ملیہ میٹ کر دیا لیکن حماس کو ختم کرنے کے اسرائیلی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے متعدد بار حماس کے مکمل خاتمے کے عزم کو دہرایا اور اپنی پوری طاقت استعمال کی لیکن اتوار کو جب تین اسرائیلی قیدی خواتین کو غزہ سے رہا کیا گیا تو اس وقت حماس کے درجنوں مسلح افراد کو سینکڑوں فلسطین کے درمیان دیکھا گیا، جو ان ویڈیوز میں مکمل کنٹرول میں دکھائی دیے۔
471 دن تک طاقت کے استعمال کے بعد اتوار کو جب فائر بندی کا آغاز پر قیدیوں کے تبادلہ کے وقت حماس کے کارکن بڑی تعداد میں نظر آئے جو ان کی مؤثر موجودگی کی دلیل تھی۔
اتنی طویل لڑائی میں حماس کی عسکری طاقت میں کیا کمی آئی اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ حماس کی موجودگی اب بھی حقیقت ہے اور اس بنا پر بالآخر جنگ بندی پر آمادہ ہونا پڑا۔
جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد حماس کے کارکن جس منظم انداز میں غزہ کے وسط میں منظر عام آئے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ اب بھی غزہ کی پٹی عملی طور پر انہی کے کنٹرول میں ہے۔
اسرائیل جارحیت کے دوران نہ صرف حماس کی اعلٰی قیادت میں شامل کئی شخصیات کی جان گئی بلکہ اسرائیلی حکومت حماس کے ہزاروں جنگجوؤں کو ختم کرنے کا دعویٰ بھی کرتی رہی ہے۔
اس قدرجانی نقصان کے باوجود جارحیت کے دوران حماس نے اسرائیلی فوج پر متعدد مہلک حملے کیے جس میں اس کو بھاری فوجی نقصان اٹھانا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ڈیفینس فورسز نے لگ بھگ 50 ہزار فلسطینیوں کی جان لی جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں فلسطینی جو لاپتہ ہیں ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہیں۔
بم، میزائل حملوں اور بارود سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو کھنڈر تو بنا دیا لیکن وہ فلسطینوں کی ہمت کو نہ توڑ سکا۔ غزہ کی پٹی جہاں اسرائیل کی زمینی فوجیں ڈیڑھ سال تک فلسطینوں کو پٹی کے ایک حصے سے دوسرے کنارے تک دھکیلتی رہیں حماس کی عسکری طاقت کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔
اسرائیل کو اس جارحیت کے دوران نہ صرف بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس لڑائی میں کی معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا اور سات اکتوبر 2023 سے 2024 کے اواخر تک اسرائیل کے معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 67 ارب ڈالر سے زائد کا لگایا گیا۔
اب بھی درجنوں اسرائیلی حماس کی قید میں ہیں، جہاں تک اسرائیل کی فوجیں نہیں پہنچ سکیں اس لیے بالآخر اسے فائر بندی پر آمادہ ہونا پڑا۔ اگرچہ ماضی میں بھی اسرائیل نے پوری کوشش کی کہ وہ حماس کو ختم کر سکے لیکن نہ پہلے ایسا ہوا اور نہ اب۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔