سکندر سلطان راجہ کو پاکستان کا نیا چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) تعینات کر دیا گیا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے الیکشن کمیشن کی چیئرپرسن شیریں مزاری نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے تیرہویں اجلاس میں سکندر سلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ خوش آئند بات ہے کہ پارلیمان نے یہ فیصلہ کیا۔ یہ پارلیمان کی ذمہ داری تھی اور ہم نے یہ ذمہ داری پوری کی ہے۔‘
قانون کے مطابق سابق چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے 45 دن میں نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی ضروری ہے۔ منگل کو اس ڈیڈ لائن کے آخری دن بالآخر سکندر سلطان راجہ کو تعینات کردیا گیا۔
پارلیمانی کمیٹی میں سندھ اور بلوچستان کے الیکشن کمیشن اراکین کا معاملہ گذشتہ ایک سال جبکہ چیف الیکشن کمشنر کا معاملہ دو ماہ سے زیر التوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ای سی پی کے سندھ کے رکن نثار درانی جبکہ بلوچستان سے شاہ محمد جتوئی ہوں گے۔ سندھ کے رکن کا انتخاب پیپلز پارٹی کا تھا جبکہ بلوچستان کے رکن کا انتخاب جے یو آئی کا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کا نام حکومت کا تجویز کردہ تھا اور مسلم لیگ ن نے تمام تجاویز کی حمایت کی۔
نئے چیف الیکشن کمشنر کون ہیں؟
سکندر سلطان راجہ پاکستان کے اٹھارہویں چیف الیکشن کمشنر ہیں۔ انہوں نے ایم بی بی ایس کر رکھا ہے اور سول سروس کا امتحان پاس کرکے اسلام آباد میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔
وہ سول سروس کے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور فیڈرل سیکرٹری اور کشمیر و گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ وہ گذشتہ برس دسمبر میں بطور سیکرٹری ریلوے ریٹائر ہوئے۔
پارلیمانی الیکشن کمیٹی کے ارکان کیا کہتے ہیں؟
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کمیٹی کے پاس جتنے نام آئے تھے سب پروفیشنل لوگ تھے اور ممبران کی پروفائل اور تجربات دیکھ کر فیصلہ کیا گیا۔
انھوں نے کہا: ’امید ہے ممبران اور چیف الیکشن کمشنر اپنی غیر جانبدار پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں مثبت کردار ادا کریں گے۔‘
رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں جو تجربات ہوئے ان سے الیکشن کمیشن کا جانبدار تاثر ابھرا۔
ان کا بھی کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ای سی پی کے تینوں نئے اراکین آئندہ آنے والے انتخابات کے شفاف اور غیرجانبدار ہونے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ نئے چیف الیکشن کمشنر موجودہ حکومت کا معروف فارن فنڈنگ کیس بھی جانبدار طریقے سے دیکھیں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’سلطان سکندر راجہ نے ن لیگ کے دور حکومت میں بھی کام کیا ہے اور وہ بہت محنتی افسر ہیں۔ اس لیےان سے توقع ہے کہ وہ میرٹ پر ہر کیس کی کارروائی کریں گے۔‘
سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ نے جو یہ اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوا کہ سویلین بالادستی کی جانب آج ہم کچھ قدم آگے بڑے ہیں۔ 13 اجلاسوں میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے اپنا فیصلہ خود کیا ہے۔‘
سینیئر پارلیمانی صحافی و کالم نگار ارشد وحید چوہدری نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ بہت چیلنجنگ ہے کیونکہ ہر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد ہو جاتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کو اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کسی اعلیٰ بیوروکریٹ کو ملا ہے، اس سے قبل یہ عہدہ ہمیشہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے حصے میں آتا رہا ہے۔
ارشد وحید نے مزید بتایا: ’تاثر یہ ہے کہ سکندر سلطان راجہ ن لیگ سے قریب ہیں، نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے داماد بھی ہیں، لیکن دلچسب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ان کا نام میرٹ پر تجویز کیا۔‘
پارلیمانی کمیٹی برائے الیکشن کمیشن 12 افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے آٹھ رکن قومی اسمبلی جبکہ چار سینیٹرز ہیں۔ کمیٹی کی چیئرپرسن وفاقی وزیر شیریں مزاری ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے علی محمد خان، فخر امام، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کمیٹی میں شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن سے سینیٹر مشاہد اللہ، شزا فاطمہ اور رانا ثنا اللہ کمیٹی کے اراکین ہیں، پیپلز پارٹی سے راجہ پرویز اشرف اور سکندر میندھرو جبکہ جے یو آئی سے شاہدہ اختر کمیٹی میں شامل ہیں۔