نظام کو بدلنے کی غرض سے احتجاج کے انوکھے انداز

مظفر آباد سے تعلق رکھنے والے فیصل جمیل کاشمیری کبھی نظام کا جنازہ پڑھاتے ہیں تو کبھی سڑک پر کھڑے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلاتے ہیں۔

استعارے کے طور نظام کی کفن میں لپٹی لاش کا سڑک کنارے جنازہ پڑھانا ہو یا ٹوٹی سڑکوں پر کھڑے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چھوڑنا اور سرکاری ہسپتالوں میں دوائیوں کے لیے عوام سے چندہ مانگنا۔ یہ سارے انوکھے کام مظفر آباد کے رہائشی فیصل جمیل کاشمیری کرتے رہے ہیں، جنہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بدلنے کا عزم کیا ہوا ہے۔

دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کے خلاف احتجاج ہو یا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر آگاہی، سرکاری وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم پر بات کرنا ہو یا سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان کی، فیصل جمیل ہر جگہ صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

انہوں نے اپنا کاروبار اور سرکاری ملازمت محض اس لیے چھوڑی کہ کشمیر کو بدلا جا سکے۔

فیصل جمیل کاشمیری نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ’ہماے علاقے میں ترقی کا تصور بہت غلط لیا جاتا ہے،اس ترقی کے تصور کو درست کرتے ہوئے یہاں حقیقی ترقی لانے کی ضرورت ہے اور میں نے پانچ سالہ سرکاری ملازمت اسی سوچ کے تحت چھوڑی۔ اس کے بعد میں نے ڈویلپمنٹ سیکٹر کا رخ کیا۔ سوسائٹی کی بہتری کے لیے اپنے طور پر کوششیں کیں اور مختلف طریقوں سے احتجاج کیا۔‘

سڑک کے کھڑے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلا کر احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مظفرآباد میں اپر اڈاہ ایک بہت خوبصورت مقام ہے۔ اس جگہ سڑک بہت خراب تھی۔ بارش میں وہاں لوگوں کے لیے چلنا محال ہو جاتا تھا۔ میں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور وہیں سڑک پر کھڑے اس پانی میں میں نے بطور احتجاج کاغذ کی کشتیاں بنا کر چلائیں، جس کے بعد حکومت نے سڑک کو ٹھیک کیا۔‘

اسی طرح نظام میں ہونے والی نا انصافیوں پر فیصل جمیل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے سڑک کنارے پر سسٹم کا جنازہ پڑھوایا، جس کے بعد ان کے خیال میں کافی سارے ایشوز پر بہتری دیکھنے کو ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہاں سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہیں تھیں، جس پر میں نے دھرنہ دیا اور بعد میں لوگوں کے ساتھ مل کر بھیک مارچ کا آغاز کیا۔ یہ میری ذاتی کوششیں تھیں، جس کے بعد ایک وقت آیا کہ جب آپ کے کام میں مخلص ہوتے ہیں تو لوگ آپ کے ساتھ جڑتے چلے جاتے ہیں۔‘

ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب دریائے نیلم کا رخ موڑا گیا تو ’دریا بچاؤ تحریک‘ چلائی گئی، جس میں نے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔‘

فیصل جمیل کا کہنا تھا کہ ’یہ ساری کوششیں انفرادیت کے بعد اجتماعیت کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اب انشااللہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وہ سوسائٹی تشکیل پاچکی ہے۔‘

2005 کے زلزلے کے بعد شروع ہونے والے پراجیکٹس پر مبینہ طور پر کام سست ہونے کے خلاف فیصل نے صدائے احتجاج بلند کی، اگرچہ لوگوں نے انہیں پاگل تک کہا لیکن وہ اپنے راستے پر چلتے رہے۔

انہوں نے مظفر آباد کے سی ایم ایچ ہسپتال میں دوائیوں کی عدم دستیابی کے خلاف شفاخانے کے سامنے دھرنا دیا۔ بلکہ کشکول اٹھا کر شہر میں ادویات کے لیے بھیک بھی مانگی۔

پاکستان زیر انتظام کشمیر کے معروف سماجی کارکن مرزا شہزاد کا کہنا تھا کہ ’فیصل جمیل ایک مخلص انسان ہیں اور اپنی دھرتی کے ساتھ مخلص ہیں۔ مختلف عوامی ایشوز پر ہونے والے احتجاجوں میں فیصل جمیل لازمی نظر آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سامنے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ دھرتی پر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور فیصل جمیل اس دھرتی کے ساتھ مخلص انسان ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان