پراسرار بیماری سے 17 اموات، کشمیر کے گاؤں میں خوف و ہراس

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک گاؤں میں پراسرار بیماری سے ایک ماہ کے دوران تین خاندانوں کے 17 افراد جان سے جا چکے ہیں۔

16 جنوری 2025 کو انڈیا کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کے گاؤں اننت ناگ میں برف باری کے دوران لوگ چل رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پر اسرار بیماری نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے دور دراز گاؤں میں تین خاندانوں کو تباہ کر دیا جہاں ایک ماہ کے دوران 17 افراد کی جان جا چکی ہے۔

تمام اموات ضلع راجوڑی کے گاؤں بدھل میں ہوئیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکے ہیں جب کہ ماہرین اس بیماری کی وجہ جاننے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

اتوار کو 16 سالہ یاسمین کوثر جموں کے ایک ہسپتال میں اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئیں۔ وہ محمد اسلم کی زندہ بچ جانے والی آخری اولاد تھیں۔ محمد اسلم گذشتہ ہفتے پانچ بچوں اور دو رشتہ داروں کو کھو چکے ہیں۔

یہ اموات آپس میں جڑے تین خاندانوں میں ہوئیں جن میں سے دو خاندانوں کے نو افراد سات سے 12 دسمبر کے درمیان جان سے گئے۔

بدھل، جو ایک دور افتادہ گاؤں ہے اور جہاں زیادہ تر آبادی اقلیتی برادری سے تعلق رکھتی ہے جو انڈیا کے سب سے زیادہ پسماندہ طبقات میں سے ایک ہے، اب سوگ اور خوف کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ مرنے والوں کو دو قبرستانوں میں دو قطاروں میں دفن کیا گیا جو اس سانحے کی دل دہلا دینے والی یادگار ہیں۔

مذکورہ برادری کے اجتماعات ختم ہو چکے ہیں اور بہت سے مکینوں نے گھروں سے باہر تیار کیا گیا کھانا کھانے سے انکار کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا کے وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس صورت حال کی چھان بین کے لیے اعلیٰ سطح کی بین الوزارتی ٹیم روانہ کی ہے۔ یہ ٹیم جس میں صحت، زراعت، کیمیکلز اور آبی وسائل کی وزارتوں کے ماہرین شامل ہیں، اتوار کی شام راجوڑی پہنچ کر بیماری کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اس معاملے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا: ’محکمہ صحت اور دیگر اداروں نے اموات کی تحقیقات کی ہے لیکن اب تک اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ وزیر داخلہ کی ٹیم مقامی حکام کے ساتھ مل کر امدادی کام کرے گی اور حقائق کو سامنے لائے گی۔‘

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پولیس نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے تاکہ دیگر پہلوؤں، بشمول کسی مجرمانہ سازش کے امکان، کی جانچ کی جا سکے۔

یہ بیماری جو ابتدا میں بخار، پیٹ میں درد، قے، اور وقفے وقفے سے ہوش کھونے کی علامات کے ساتھ ظاہر ہوئی، نے سات دسمبر کو اپنا پہلا شکار کیا۔

بدھل کے رہائشی فضل حسین اپنی بیٹی کی شادی کی تقریب کے دوران کھانا کھانے کے بعد بیمار پڑ گئے۔ چند دنوں کے اندر ان کے خاندان کے مزید چار افراد، جن میں پانچ  سے 14 سال کی عمر کے بچے شامل ہیں، چل بسے۔ اموات کی دوسری لہر 12 دسمبر کو آئی، جب محمد رفیق کے خاندان کے تین بچوں کی جان

چلی گئی۔ تیسری لہر 12 جنوری کو محمد اسلم کے خاندان میں شروع ہوئی اور یاسمین کی موت پر ختم ہوئی۔

ہندو بزنس لائن نے رپورٹ کیا کہ میڈیکل ٹیموں نے علاقے میں تین ہزار سے زیادہ افراد کی سکریننگ کی لیکن کسی بھی بیکٹیریا یا وائرس سے پیدا ہونے والی متعدی بیماری کا کوئی سراغ نہیں ملا جو ان اموات کا سبب بن سکتی ہو۔ 

اخبار دا پرنٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ساڑھے 12 ہزار  سے زائد نمونے، جن میں خون، خوراک، اور ماحولیاتی مواد شامل ہیں، قومی صحت کے سرکردہ اداروں نے جمع کر کے ان کا معائنہ کیا۔ ابتدائی نتائج میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والے زہریلے مادوں کی موجودگی ظاہر ہوئی، لیکن یہ زہریلا مواد کیا ہے اور کہاں سے آیا؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ 

تحقیق کرنے والوں کو شبہ ہے کہ آلودہ خوراک یا پانی اس بیماری کے پھیلنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ گاؤں کے چشمے سے لیے گئے پانی کے نمونے میں کیڑے مار ادویات یا جراثیم کش کی موجودگی پائی گئی جس کے بعد حکام نے اس علاقے کو سیل کر کے صاف کیا اور متاثرہ خاندانوں کو الگ تھلگ پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا۔

جموں و کشمیر کی وزیر صحت سکینہ ایتو کا کہنا ہے کہ ’وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ اور نگرانی کے باوجود، ہم ابھی تک یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ان لوگوں کی موت کی وجہ کیا ہے۔ ہم نے بیکٹیریا اور وائرس کی وجہ سے انفیکشن کے امکان کو مسترد کر دیا لیکن اس سے یہ معمہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔‘

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی، نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول، اور پی جی آئی ایم ای آر چندی گڑھ جیسے اداروں کے ماہرین کو تحقیقات تیز کرنے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔

مقامی رہائشی خوف اور مایوسی کا شکار ہیں کیوں کہ لوگوں کی اموات نے ان کی روزمرہ زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ گاؤں کے ایک رہائشی ناصر احمد نے برادری کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ وائرس کیسے ہو سکتا ہے جب کہ صرف تین خاندان متاثر ہوئے ہیں؟ اگر یہ کوئی بیماری ہوتی تو دوسروں تک بھی پھیل جاتی۔ ہم کھانے پینے سے خوفزدہ ہیں۔‘

اجتماعی کھانوں کے بعد اموات کے بار بار پیش آنے والے واقعات نے جان بوجھ کر زہر دینے کے امکان کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔ اگرچہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور شواہد جمع کر رہی ہے، لیکن اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا