کرکٹ میچ کا بائیکاٹ نہ کیا جائے: افغان شہریوں کی برطانوی پارلیمان میں قرارداد

مختلف ممالک کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کے دوران افغانستان کے بائیکاٹ کی مطالبات کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ میں مقیم متعدد افغانوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی حمایت میں برطانیہ کی پارلیمان میں قرار داد جمع کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

17 دسمبر 2024 کو ہرارے میں افغانستان کے کھلاڑی زمبابوے کے بلے باز کو آؤٹ کرنے پر جشن مناتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے پر برطانیہ سمیت مختلف ممالک کے چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم سے میچ نہ کھیلنے کے اعلان پر برطانیہ میں افغان شہریوں نے پارلیمان میں ایک قرارداد جمع کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان میں منعقدہ کرکٹ کی چیمپئنز ٹرافی کے دوران افغانستان کے بائیکاٹ کی مطالبات کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ میں مقیم متعدد افغانوں نے افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی حمایت میں ایک اجلاس منعقد کیا ہے۔

اجلاس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک قرارداد برطانوی پارلیمان میں بھی جمع کرائیں گے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ ’واضح طور پر خواتین کی تعلیم اور حقوق کے حوالے سے طالبان کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ افغان ٹیم پر پابندی لگانے کی مہم غلط، بےسود اور افغانوں اور برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘

خط میں برطانوی سیاست دانوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ افغان کرکٹ کی حمایت کریں کیونکہ انہوں نے افغان شہریوں کی مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس کے شرکا میں سے ایک اور افغان پارلیان کی سابق نمائندہ شکریہ بارکزئی کہتی ہیں، ’کرکٹ نہ صرف ہمیں خوشی دیتی ہے بلکہ ہماری شناخت بھی محفوظ رکھتی ہے۔ کرکٹ افغانستان کی قومی شناخت ہے۔‘

اجلاس میں زیادہ تر مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ’کرکٹ کو سیاست کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے۔‘ یہ ایک طرح سے ان بیانات کا حوالہ تھا جو حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ کے کچھ ارکان نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ سے کہا تھا کہ وہ چیمپئنز ٹرافی میں افغان ٹیم کے ساتھ نہ کھیلنے کا فیصلہ کرے۔

برطانوی نمائندے اس قدم کو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان حکومت کی پالیسیوں کے جواب میں ایک قسم کا دباؤ قرار دیتے ہیں۔

انگلینڈ کے بعد جنوبی افریقہ کے حکام نے بھی ایسے ہی بیانات دیے اور طالبان سے انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی خاطر افغان قومی ٹیم کے ساتھ کرکٹ میچز منسوخ کرنے کی درخواست کی۔

انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈز نے اپنے ممالک کے سیاست دانوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'افغانستان کے بارے میں فیصلہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے تقاضوں اور ضوابط کے مطابق کرنا چاہیے۔‘

کچھ افغان کرکٹ کو واحد چیز کہتے ہیں جو اس وقت بین الاقوامی سطح پر افغانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

افغان کرکٹ قومی ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ خان احمد زئی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کرکٹ روک کر لڑکیوں کے سکول کھولے جا سکتے ہیں تو وہ آج کرکٹ بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کرکٹ کے کھلاڑیوں نے افغان بہنوں اور بیٹیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ یہ صرف ایک شخص کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہم سب مل کر اس کو حل کریں گے۔‘

لندن میں بلائے گئے اجلاس کے منتظم عزیز ہمدرد نے کہا کہ کرکٹ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا افغان لڑکیوں کی زندگیوں پر پابندیاں لگانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے لیے مسائل پیدا کرنا حل نہیں ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ای سی سی) نے کہا کہ افغانستان کرکٹ بورڈ کو اس ملک کی حکومت کی جانب سے طے شدہ پالیسیوں کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ 

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا خیال ہے کہ افغان ٹیم کو افغان حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سزا نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کے ارکان طالبان کی پوزیشن کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ