پشاور کی اس عمارت میں ویل چیئر پر موجود بچے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھے، جن کی دیکھ بھال کرنے والا نوجوان بھی وہیں کھڑا تھا۔ ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی اور سب نے سلام کے لیے ہاتھ آگے کر دیا۔
اسی عمارت کے لان میں ایک شخص اکیلا بیٹھا نظر آیا، جس کی عمر تو تقریباً 40 برس کے لگ بھگ تھی لیکن ذہنی حالت کسی پانچ سال کے بچے کی طرح معلوم ہوئی۔ ادارے کے سربراہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے اپنی طرف بلایا: ’بلال یہاں آجائیں، اکیلے کیوں بیٹھے ہیں۔‘
یہ منظر پشاور میں قائم ’اینجلز ہوم‘ یعنی ’فرشتوں کا گھر‘ کے نام سے قائم ادارے کا ہے، جہاں لاوارث خصوصی بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کا علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے۔
اس خیراتی ادارے میں دو سال سے زائد عمر کے 50 بچے رہائش پذیر ہیں، جن کی 24 گھنٹے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ان میں سے بعض افراد عمر کے لحاظ سے بڑے لیکن ذہنی طور پر بچے ہیں۔
ادارے کے سربراہ مورس خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ابھی جو مناظر آپ نے دیکھے، یہ بہت نارمل ماحول ہے۔ اگر آپ صبح آئیں تو نظر آئے گا کہ کس طرح یہاں ان بچوں کے ڈائپرز بدلنے سے لے کر نہانے اور کھانے پینے کا بندوبست ہوتا ہے۔‘
یہ ادارہ پانچ سال قبل قائم ہوا تھا اور اس کے لیے عمارت عطیہ کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک کمرے میں دیکھ بھال کرنے والی سدرہ نامی خاتون جھولے میں موجود بچے کو تھپک کر سلانے میں مصروف تھیں۔
اس بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مورس خورشید نے بتایا: ’یہ دو سال کا خصوصی بچہ ہے، جسے کسی نے اس ادارے کے گیٹ کے سامنے چھوڑ دیا۔ اب اس کی تمام تر ذمہ داری ہماری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس ادارے میں لاوارث سمیت ایسے بچے بھی شامل ہیں، جن کے خاندان والے غربت یا کسی اور وجہ سے انہیں پال نہیں سکے۔
مورس کے مطابق: ’کچھ ایسے خاندان بھی ہوتے ہیں، جن کے اسی طرح دو تین بچے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ سب کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے تو وہ ایک بچہ یہاں لا کر ہمارے حوالے کر دیتے ہیں۔‘
اس ادارے کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مورس خورشید نے بتایا کہ ہمارا ماہانہ خرچہ تقریباً 22 لاکھ روپے ہے، جس میں ان بچوں کا کھانا پینا، علاج معالجہ، ملازمین کی تنخواہیں اور باقی بلز وغیرہ شامل ہیں۔
عمارت کے کمروں میں بچوں کی سہولت کے لیے ہیٹرز لگائے گئے ہیں جبکہ ایک کمرے میں سکول کا ماحول بنایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک کمرے میں بچوں کو تفریح کا موقع فراہم کرنے کے لیے ٹی وی نصب تھا، جس پر وہ کارٹون دیکھ رہے تھے۔
مورس خورشید نے بتایا کہ کچھ بچے ابتدا میں اس حالت میں لائے جاتے ہیں، جو پُر تشدد ہوتے ہیں اور گھر والے ان کو باندھ کر رکھتے ہیں، تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں لیکن یہاں کچھ دن گزار کر وہ ایسے نہیں رہتے۔
انہوں نے بتایا: ’ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کی ٹریننگ کی جاتی ہے۔ عام بندہ ان بچوں کی تربیت نہیں کر سکتا۔ مجبوراً فیملی والے انہیں یہاں لے آتے ہیں جبکہ بعض تو گلے میں نام لکھ کر یہاں انہیں گیٹ پر چھوڑ جاتے ہیں۔‘
اس ادارے میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 24 ملازمین رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بچے کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا اور انہیں کھانا پینا فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
بچیوں کے لیے خواتین ملازمین رکھی گئی ہیں، جو شیر خوار بچوں سمیت تمام بچیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
ان ہی میں سے ایک سدرہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نارمل بچوں کے مقابلے میں خصوصی بچوں کو سنبھالنا اور بھی بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جب لگن ہو تو بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ان سارے بچوں کو ہم اپنے بچوں کی طرح سنبھالتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سپیشل بچے معصوم ہوتے ہیں۔‘
ادارے کے سربراہ مورس خورشید نے بتایا کہ وہ اپنی کوشش اور خیرات و زکوۃ سے ادارے کو چلا رہے ہیں لیکن ریاستی سرپرستی بھی ضروری ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ یہ صرف سپیشل بچوں کے علاج معالجے کا ادارہ نہیں بلکہ یہ ان کا گھر ہے اور ہم ان کے والدین ہیں۔