پرویز مشرف کی بحیثیت 4 سٹار جنرل تقرری کے بعد انہیں وزیر اعظم میاں نواز شریف پاکستان فوج کا سربراہ مقرر کرتے ہیں۔ یہ اکتوبر 1998 کی بات ہے۔
بی بی سی ریڈیو سیربین کی ٹیم نے اس خواب کے ساتھ گھوڑے دوڑائے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر آج پرویز مشرف ہاتھ لگ جائیں، پروگرام میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اور پھر سیربین کی ٹیم نے ہر صبح کی ایڈیٹوریل میٹنگ کی طرح دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ سیر بین کا طرہ امتیاز ہی یہی تھا کہ کسی ’کی پلیئر‘ کا انٹرویو، کوئی ندرت پروگرام میں بہرحال شامل رہے۔
سیربین کے ایڈیٹر نے معنیٰ خیز انداز میں میری طرف دیکھا کیونکہ اس روز پروگرام کا میزبان میں تھا۔ میں نے بھی جھپی مار کندھے اچکا دیے۔ اشاروں میں پو چھنا وہ یہ چاہ رہے تھے کہ کیا خیال ہے ’انہیں‘ پکڑا جائے؟ میرا جواب یہی تھا کہ آئیڈیا برا نہیں، اپنی سی کر ڈالتے ہیں۔
ویسے یہ شوشہ اردو سروس کے سربراہ عباس ناصر کا چھوڑا ہوا تھا کہ ’پروگرام پریزینٹر لیڈ ہی ہو گا‘ یعنیٰ جو سیربین پریزنٹ کرے گا، زیادہ سے زیادہ انٹرویو بھی وہی کرے گا۔ گویا پریزنٹر، نوشہ میاں نہیں کہ ہار پھول پہنے سٹیج پر بتیسی نکالے بیٹھے اور سلامی (نقدی) قبول کرتا رہے بلکہ ’کی پلیئرز‘ کو پکڑ نا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔ اور روزانہ ہوتا بھی یہی تھا، بسا اوقات تو باقی ٹیم لنچ پر نکل جاتی اور میزبان مہمان پکڑنے کے چکر میں سٹوڈیو میں پھنسا رہ جاتا۔
خیر، پرویز مشرف صاحب تک پہنچنے کہ لیے میں اپنے ’کانٹیکٹس‘ یا ذرائع لڑاتے ہوئے مشرف کو مبارک سلامت دینے والی پارٹی میں ایک محترمہ تک پہنچ چکا تھا۔ انہیں غایت بتائی تو انہوں نے ’مجھے مروا نہ دینا، وہ تو گھرے ہوئے ہیں‘ کہتے ہوئے فون کسی اور کو تھما دیا۔ میں یہ صاف سن چکا تھا کہ ’بی بی سی سے فون ہے، بات کر لیں۔‘ اتنے میں ایک مردانہ آواز نے کہا ’جی کہیے! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے مودبانہ گزارش کی، ’پلیز جنرل مشرف صاحب سے بات کرا دیجیے لاکھوں آج انہیں سننا چاہیں گے۔‘ وہ بولے، ’پرویز تو چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں، میں ان کا ’باپ‘ بول رہا ہوں، پوچھییے، کیا پوچھنا ہے؟‘
جھٹکا تو مجھے لگا لیکن فوراً سنبھلتے اور سوچتے ہوئے کہ باپ سے بہتر بیٹے کو بھلا کون جانتا ہو گا، میں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔
’سر! بہت بہت شکریہ، بہت بہت مبارک ہو آپ کو، پہلا سوال تو یہی کہ آپ کا پورا نام؟ تاکہ میں صحیح تلفظ کے ساتھ نام لینے میں کوئی غلطی نہ کروں۔‘
جواب آیا، ’سید مشرف الدین۔‘
’جنرل صاحب کی ابتدائی زندگی اور تعلیم وتر بیت پر کچھ روشنی ڈالیے گا سر؟‘
جواباً بڑی شفقت سے بولے جی بالکل۔
پھر گویا ہوئے، ’پرویز کی پیدائش 1943 میں دلی کی ہے۔ بچپن ان کا ترکی اور پاکستان میں گزرا، پاکستان میں جب کراچی آئے تو پرویز چار سال کے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد میں سول سروس میں تھا اور 1949 میں سفارتی عملے میں شامل ہو کر انقرہ، ترکی چلا گیا تھا جہاں خاندان اور پرویز میاں بھی میرے ساتھ ہی تھے۔ انقرہ میں ہمارا قیام 1956 تک رہا اور پھر ہم لوگ کراچی آ گئے تھے۔‘
’تو پھر، ابتدائی تعلیم اور بعد کے مدارج؟‘
’ابتدائی تعلیم تو پرویز کی پہلے ترکی اور بعد میں پاکستان کی ہے۔‘
’کتنے بہن بھائی ہیں؟‘ میرا اگلا سوال تھا۔
’بہن وہن تو کوئی نہیں لیکن تین بیٹے ہیں ۔ پرویز کا نمبر ان میں دوسرا ہے اور ماشاءاللہ سے وہ ہمیشہ سے بڑے ذہین اور تیز رہے ہیں اور کھیل کود میں بھی بڑی دلچسپی رہی ہے۔‘
مثلاً؟ (مجھ سے رہا نہ گیا)
’ٹینس وغیرہ میں بڑی دلچسپی رہی ہے۔‘
’تو کرکٹ، فٹبال یا ہاکی وغیرہ میں نہیں؟‘
’نہیں کرکٹ فٹبال یا ہاکی میں تو نہیں لیکن کتّوں میں ہے، وہ انہیں پسند بھی ہیں اور وہ انہیں خوب پالتے بھی ہیں۔‘
اچھا! (سوچ رہا تھا اب کیا پوچھوں) خیال آیا سیف سائیڈ ہے کیوں نہ دین دنیا کی طرف لے جاؤں۔
’نماز روزے، صوم و صلوات کی پابندی وغیرہ؟‘
زناٹے دار جواب آیا، ’ان سب کی پابندی اس کے باپ نے نہیں کی تو وہ کیا کرے گا۔‘
اور سید مشرف الدین کی اس باؤنسر کو میں سنبھالے نہ سنبھال پایا لیکن پھر بھی ہوش و حواس ٹھکانے رکھ کر اس لبرل ازم کو فوراً تیاگتے ہوئے میں نے پوچھا، ’ادب شعر وشاعری وغیرہ میں کوئی دلچسپی؟‘
’ہاں بس واجبی سی،‘ جواب تھا۔
’جوانی میں عشق وغیرہ کے مدارج سے گزرے؟‘ اب میں بھی ذرا فری ہو رہا تھا۔
’ہاں بالکل گزرے، لیکن اب اس کی تفصیل کو چھوڑیے،‘ جواب خاصی مسکراہٹ والی آواز میں آیا۔
’عادات و اطوار میں آپ پر گئے ہیں یا اپنی امی پر؟‘
بولے ’چھوڑیے اس کو، کچھ اور پوچھیے۔‘
’تو شادی جنرل صاحب کی؟ (پینچ میں اٹکی اس پتنگ کو میں چھوڑنے کے موڈ میں نہ تھا) پسند کی یا اپنی مرضی کی؟‘
والد محترم بولے ’پسند ان کی تھی اور مرضی ہماری۔‘
’تو خوش تو ہیں نا؟‘
’بہت ہی خوش، ہم بھی خوش وہ بھی خوش۔ ہم سب بس خوش ہی خوش۔‘ لگا کہ اب والد محترم خود کچھ بتانا چاہ رہے ہیں، میں سوال نہ کروں اور پھر ہوا بھی یہی۔
وہ بتانے لگے کہ ’کراچی آنے کے بعد پرویز نے سینٹ پیٹرک میں داخلہ لیا اور پھر ایف سی کالج لاہور میں، پہلے میتھس میں دلچسپی تھی لیکن جانے کیوں بعد میں اکنامکس کا بھوت سوار ہو گیا۔‘
’تو فوج میں کب اور کیسے آ گئے؟‘ اب میں کلر کوئسچنز پر آ رہا تھا۔
سید مشرف الدین بولے ’خود اپنی مرضی سے 1961 میں بھرتی ہوئے، 1964 میں کمیشن ملا اور 1980 میں آرٹلری بریگیڈ کی کمان بھی کی۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ
(نوٹ: جنرل پرویز مشرف کے والد سید مشرف الدین کا یہ انٹرویو ایڈٹ کر کے چلایا گیا تھا کیونکہ روزے نماز کی پابندی والے سوال کے جواب کے ممکنہ اثرات و نتائج کچھ اور ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ انٹرویو موجود ہے)