سینکڑوں بنگلہ دیشی مظاہرین نے جمعرات کو ایسی عمارتیں مسمار کیں جن کا تعلق معزول سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ سے تھا، اس سے چند گھنٹے قبل طلبہ نے بلڈوزرز کی مدد سے ان کے والد کے میوزیم کو گرانا شروع کیا تھا۔
یہ میوزیم اور شیخ حسینہ کے مرحوم والد اور بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کا سابقہ گھر گذشتہ سال اس طلبہ تحریک کے دوران نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔
اس تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کے 15 سالہ آمرانہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہوا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق بدھ کی رات دیر گئے، اس دن کے ٹھیک چھ ماہ بعد جب شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے فرار ہو کر اپنے دیرینہ اتحادی انڈیا میں پناہ لی تھی، ڈھاکہ میں مشتعل ہجوم نے ہتھوڑے اور لوہے کی سلاخیں اٹھا کر عمارت کی دیواریں توڑنا شروع کر دیں۔
یہ احتجاج اس خبر کے ردعمل میں شروع ہوا کہ 77 سالہ شیخ حسینہ، جن کے ڈھاکہ میں قتلِ عام کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، جلاوطنی سے فیس بک پر براہِ راست خطاب کرنے والی ہیں۔
جمعرات کی صبح بلڈوزرز کی مدد سے جل کر سیاہ ہو جانے والی دیواروں کو گرایا جا رہا تھا۔
مظاہرین نے ملک بھر میں شیخ حسینہ سے منسلک دیگر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچایا اور نذرِ آتش کیا، جن میں ڈھاکہ میں ان کے مرحوم شوہر کے گھر پر آتش زنی کا حملہ بھی شامل ہے۔
بنگلہ دیش کے سب سے بڑے بنگالی روزنامے پروتھوم آلو کے مطابق، ہجوم نے سرکاری بلڈوزرز کا استعمال کرتے ہوئے شہر خولنا میں شیخ حسینہ کے خاندان کی ملکیتی ایک عمارت کو مسمار کر دیا۔
مغربی شہر کُشتیا میں مظاہرین نے حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے رہنما محبب العالَم حنیف کے گھر میں توڑ پھوڑ کی۔
چٹاگانگ میں مظاہرین نے مشعل بردار جلوس نکالا اور شیخ مجیب الرحمان کا مجسمہ توڑ دیا۔
عبوری حکومت کی جانب سے ان حملوں پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، جبکہ سکیورٹی فورسز خاموش تماشائی بنی رہیں اور عمارتوں پر دھاوا بولنے کے دوران مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک نجی سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ انہوں نے فائر بریگیڈ کو آگ بجھانے کے لیے درجنوں بار کال کی، کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ شعلے قریبی رہائشی عمارتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
محلے کے گارڈ جمال الدین نے کہا: ’ہم نے بجلی کا کنکشن خود کاٹ دیا، مجھے نہیں معلوم کہ حالات کب معمول پر آئیں گے۔‘
شیخ مجیب الرحمان کے سابقہ گھر کے قریب رہنے والے ایک دکان دار نے بےیقینی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے انتقامی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور کہا: ’یہ توڑ پھوڑ خطرناک علامت ہے۔‘
مسلسل 15 سال اقتدار میں رہنے کے بعد، بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے طلبہ تحریک کے نتیجے میں پانچ اگست 2024 کو استعفیٰ دے کر ہمسایہ ملک انڈیا میں پناہ لی تھی۔
پولیس نے طلبہ مظاہرین کو روکنے کے لیے کارروائی کی۔ اس احتجاج کے دوران سینکڑوں لوگوں کی جان گئی۔
جولائی 2024 میں شروع ہونے والے طلبہ کے مظاہرے جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف تھے جس پر تنقید کی گئی یہ کوٹہ سسٹم حکومت کے ساتھ روابط رکھنے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔
بعد ازاں یہ مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔ سول نافرمانی کی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے نے نو اگست 2024 کو کہا تھا کہ جب نئی نگران حکومت انتخابات کروانے کا فیصلہ کرے گی تو ان کی والدہ اپنے ملک واپس آ جائیں گی۔
وہ پہلی بار 1996 میں انتخابات جیت کر وزیراعظم بنیں۔ 2009 میں دوبارہ اقتدار میں آئیں، تب سے اب تک وہ چار مسلسل انتخابات جیتیں۔
ان کی حالیہ انتخابی فتوحات حزب اختلاف کے بائیکاٹ اور دھاندلی کے الزامات سے دھندلی رہیں۔
س کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان پر حزبِ اختلاف کو سختی سے کچلنے، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبونل نٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) نے ہمسایہ ملک انڈیا سے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر ’قتل عام‘ کا الزام لگاتے ہوئے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ وہی آئی سی ٹی ہے جسے شیخ حسینہ نے خود 2010 میں پاکستان سے 1971 کی ’جنگ آزادی‘ کے دوران ہونے والے مبینہ ’مظالم‘ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔
بنگلہ دیش نے انڈیا کو آگاہ کیا ہے کہ وہ مفرور رہنما شیخ حسینہ کے خلاف ’عدالتی کارروائی‘ کے لیے ان کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔