شیخ حسینہ نے حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار خاموشی توڑ دی

اپنے بیٹے سجیب واجد کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں شیخ حسینہ نے ان ’گھناؤنے قتل اور تخریب کاری کی کارروائیوں‘ کے ذمہ داروں کی شناخت اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

سابق وزیر اعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ 25 جولائی 2024 کو مظاہروں کے بعد، میرپور میٹرو سٹیشن پر میڈیا سے خطاب کر رہی ہیں (بنگلہ دیش وزیر اعظم آفس / اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی جلاوطن سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے والے احتجاج کے دوران سینکڑوں طالب علموں کی اموات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے بیٹے سجیب واجد کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں شیخ حسینہ نے ان ’گھناؤنے قتل اور تخریب کاری کی کارروائیوں‘ کے ذمہ داروں کی شناخت اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

سابق وزیر اعظم خود بھی عبوری حکومت کی جانب سے احتجاج کے دوران پولیس کی گولی سے ایک شخص کی موت کی تحقیقات کا سامنا کر رہی ہیں۔

پانچ اگست کو انڈیا فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ نے پہلی بار اپنے بیان میں کہا کہ ’طلبہ، اساتذہ، پولیس افسران بشمول حاملہ خواتین، صحافی، ثقافتی کارکن، مزدور، رہنما، عوامی لیگ اور اس سے منسلک تنظیموں کے کارکن، پیدل چلنے والے اور مختلف اداروں میں کام دیگر افراد دہشت گردی کی جارحیت کا شکار ہوئے اور اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ میں اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتی ہوں اور ان کی روحوں کے سکون کے لیے دعا کرتی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں اس قوم کے لوگوں سے انصاف چاہتی ہوں۔‘

شیخ حسینہ نے اپنے اس بیان میں 15 اگست 1975 کو ایک فوجی بغاوت کے دوران اپنے والد شیخ مجیب الرحمان، بنگلہ دیش کے بانی اور خاندان کے دیگر 15 افراد کے قتل کو یاد کیا۔

انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ 15 اگست کو قومی یوم سوگ کے طور پر منائیں حالانکہ عبوری حکومت نے اس روز عام تعطیل کو منسوخ کر دیا ہے۔

تقریباً 500 افراد پرتشدد مظاہروں میں مارے جا چکے ہیں جو جون کے آخر میں ملازمتوں میں متنازع کوٹے کو واپس لینے کے مطالبے پر شروع ہوئے تھے لیکن یہ جلد ہی شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف احتجاج میں تبدیل ہو گئے۔ یہ احتجاج حسینہ اور اس کے بعد ملک کے چیف جسٹس کی برطرفی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کی اس تحریک کے دوران ملک میں امن و امان کو بھی نقصان پہنچا اور پولیس اور سیکورٹی اہلکار، جنہوں نے احتجاج کے دوران سڑکوں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا،اب کہیں نظر نہیں آ رہے۔

شیخ حسینہ کے ہیلی کاپٹر پر فرار ہونے کے بعد مظاہرین نے ڈھاکہ میں ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا، توڑ پھوڑ کی اور ان والد اور ملک کے بانی کے میموریل میوزیم کو آگ لگا دی۔

شیخ حسینہ نے اپنے بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کی انتہائی تذلیل کی گئی جن کی قیادت میں ہم نے ایک آزاد قوم کے طور پر عزت حاصل کی۔

سابق وزیر اعظم کے بقول: ’انہوں (مظاہرین) نے لاکھوں شہیدوں کے خون کی توہین کی ہے اور ملک کو تباہ کر دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیخ حسینہ نے اپنی خاموشی اس وقت توڑی ہے جب نئی عبوری حکومت کے تحت پولیس نے ان کے خلاف ابو سعید نامی دکاندار کے قتل کی تحقیقات شروع کی ہیں جنہیں 19 جولائی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ ایک تاجر امیر حمزہ کی مدعیت میں درج کیا گیا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ابو سعید کے اہل خانہ میں انصاف حاصل کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

امیر حمزہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’میں پہلا عام شہری ہوں جس نے شیخ حسینہ کے خلاف ان کے جرائم کے لیے یہ قانونی قدم اٹھانے کی ہمت دکھائی۔ میں کیس کا فیصلہ ہوتے دیکھنا چاہوں گا۔‘

امیر حمزہ نے ابو سعید کے قتل کی تحقیقات کے لیے ڈھاکہ کی عدالت میں درخواست کی اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان، عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری عبدالقادر اور اعلیٰ پولیس حکام کے ساتھ شیخ حسینہ پر فرد جرم کی استدعا کی۔

عدالت نے جواب میں محمد پور پولیس سٹیشن سے تحقیقات شروع کرنے اور اسے رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں 15 سال تک حکمرانی کی اور انہیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور بدعنوانی پر نظر انداز کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا