حیدرآباد میں وکیل پر مقدمہ، ایس ایس پی معطلی کے لیے کراچی میں بھی وکلا احتجاج

ایف آئی آر کے مطابق پولیس سائرن والی مہران گاڑی کی فینسی نمبر پلیٹ پر ’ایڈوکیٹ‘ لکھا تھا، شیشے کالے تھے۔ وکیل رہنما کے مطابق ’ہمارے وکیل دوست نے ایس ایس پی پروٹوکول کراس کیا تو پولیس نے کالے شیشوں کا بہانہ بنا کر مقدمہ کیا۔‘

چھ فروری 2025 کو کراچی میں وکیلوں کا احتجاج (کراچی بار کونسل)

حیدرآباد پولیس کی جانب سے ایک وکیل کی گاڑی پر کالے شیشے اور پولیس سائرن کے غیر قانونی استعمال پر دائر مقدمہ ختم ہونے کے باوجود حیدر آباد کے بعد کراچی کے وکلا نے بھی احتجاج شروع کر دیا ہے۔

حیدر آباد پولیس کے مطابق وکیلوں کے احتجاج کے بعد مقدمہ ختم کرنے، اور گاڑی واپس کرنے کے باوجود، سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) حیدرآباد کی معطلی کے لیے جمعرات کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ اور وکلا کا احتجاج شروع کیا گیا جس کے بعد جعرات کی رات کو کراچی بار کونسل کی کال پر کراچی کے وکلا نے نے بھی احتجاج شروع کر دیا ہے۔

کراچی میں وکلا نے تین تلوار پر دیا گیا دھرنا ختم کر کے مائی کولاچی کی طرف جانے والی سڑک بند کر دی ہے، ہیوی گاڑیوں کی قطاریں لگنا شروع ہو چکی ہیں اور کورنگی سے مائی کولاچی کی طرف جانے والی سڑک بلاک کر کے کلفٹن انڈر پاس کے اوپر دھرنا دے دیا ہے۔

تین فروری کو دائر کیے گئے مقدمت کے مطابق بھٹائی نگر پولیس کی ایک ٹیم مین جامشورو روڈ پر واقع گلستان سجاد کے قریب فینسی اور سرکاری گرین نمبر پلیٹ، کالے شیشوں اور پولیس لائٹس و سائرن کے غیر قانونی استعمال کرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کر رہی تھی۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’چیکنگ کے دوران ایک مہران گاڑی پولیس سائرن بجاتے ہوئے نظر آئی۔ اس گاڑی کی فینسی نمبر پلیٹ پر ’ایڈوکیٹ‘ لکھا ہوا تھا اور اس کے تمام شیشے کالے تھے۔‘

پولیس کے مطابق گاڑی کا ڈرائیور فرار ہوگیا اور پولیس نے گاڑی تحویل میں لے کر مقدمہ دائر کر دیا، مگر بعد میں پتہ چلا کہ گاڑی ایک وکیل کی ہے۔

کینٹ تھانے کے ایس ایچ او عبدالرزاق کمانڈو نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا: ’مقدمے کے بعد 1500 سے زائد وکلا نے ایس ایس پی حیدرآباد کے دفتر پر دھاوا بول کر پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دیں اور پولیس اہلکاروں کو برا بھلا کہا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’وکیلوں نے ایس ایس پی دفتر کو 15 گھنٹے سے زائد یرغمال بنائے رکھا، جس کے باعث پولیس کا مورال ڈاؤن ہوا اور پولیس افسران نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایس ایس پی کو چھٹی کی درخواست دی۔‘

عبدالرزاق کمانڈو کے مطابق: حیدرآباد کے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز سمیت تقریباً دو درجن سے زائد افسران نے احتجاج کرتے ہوئے بدھ کے روز ایک مہینے سے ایک سال تک کی چھٹی کی درخواست دے دی۔

حیدرآباد پولیس کے افسران کی جانب سے اجتماعی چھٹی کی درخواست دینے کے بعد ضلعے کے تمام تھانے کئی گھنٹوں تک بغیر افسران کے چلتے رہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدرآباد ریجن طارق دھاریجو نے تصدیق کی کہ پولیس افسران کی جانب سے وکیلوں کے رویے کے خلاف احتجاج کے طور پر چھٹی کی درخواست دینے سے حیدرآباد کے تھانے کئی گھنٹوں تک بغیر افسران کے چلتے رہے۔

بعد میں چھٹی کی درخواست دینے والے افسران کو سمجھا کر واپس ڈیوٹی پر بھیجا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈی آئی جی طارق دھاریجو نے کہا: ’فینسی اور سرکاری گرین نمبر پلیٹ، کالے شیشوں اور پولیس لائٹس و سائرن کے غیر قانونی استعمال کرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ معمول ہے۔ اس چیکنگ کے دوران ایک گاڑی کالے شیشے، فینسی نمبر پلیٹ اور پولیس سائرن کے غیر قانونی استعمال میں نظر آئی۔

’ہم نے فینسی نمبر پلیٹ اور کالے شیشوں والی گاڑیوں کے خلاف حال ہی میں 50 سے زائد مقدمے دائر کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا اور گاڑی تحویل میں لے لی۔ اس پر وکلا نے ایس ایس پی کے دفتر کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔

’اس کے بعد وکلا سے مذاکرات ہوئے اور ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمہ ختم ہو اور گاڑی واپس کی جائے۔ ہم نے ان کے مطالبے مانے اور مقدمہ ختم کرنے کے ساتھ گاڑی واپس کر دی۔ اب وہ دوبارہ احتجاج کر رہے ہیں کہ ایس ایس پی کو ہٹایا جائے۔‘

بقول طارق دھاریجو: ’اگر ایسا کیا تو پھر پولیس کام نہیں کر سکے گی۔ کل اگر پولیس کسی کے خلاف غیر قانونی کام کرنے پر مقدمہ درج کرے اور کوئی بھی آکر احتجاج کر کے ایس ایس پی کو ہٹانے کا مطالبہ کرے گا، تو اس طرح پولیس کا کام ہی ختم ہو جائے گا۔

’پولیس قانونی طور پر فینسی اور سرکاری گرین نمبر پلیٹ، کالے شیشوں اور پولیس لائیٹس و سائرن کے غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کے خلاف مقدمہ کر سکتی ہے۔ اگر وکلا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی نہ ہو تو قانون تبدیل کروائیں، ہم وکلا سے نہیں پوچھیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پولیس نے قانون کے مطابق اپنا کام کیا ہے۔ ہم نے وکلا کے بنیادی مطالبات مان لیے تھے اور انہوں نے احتجاج ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔‘

قومی شاہراہ پر احتجاج کرنے والے وکیل رہنما اور حیدرآباد بار کونسل کے سابق جوائنٹ سیکریٹری ایڈوکیٹ حق نواز جمالی نے کہا: ’پولیس غلط بیانی کر رہی ہے۔ ہمارے وکیل دوست علی رضا نے ایس ایس پی کے پروٹوکول کو کراس کیا تو پولیس نے کالے شیشوں کا بہانہ بنا کر مقدمہ بنا دیا۔ پولیس افسران خود اپنی گاڑیوں پر کالے شیشے اور فینسی نمبر پلیٹس لگاتے ہیں۔ ایس ایس پی کی معطلی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔‘

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کے صدر ایاز حسین تنیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’کچھ وکیلوں نے بار کونسل کو اعتماد میں لیے بغیر یہ احتجاج کیا۔ اگر پولیس نے کسی وکیل پر مقدمہ دائر کیا تو اس کو عدالت میں چیلنج کر کے ختم کروایا جا سکتا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پولیس کے ساتھ وکلا کا اس طرح کا رویہ مناسب نہیں تھا۔ کچھ روز میں بار کونسل کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ کچھ وکلا اس واقعے پر سیاست کر رہے ہیں۔

’جب بنیادی مطالبات مان لیے گئے، مقدمہ ختم کر کے گاڑی واپس کر دی گئی، تو اس کے بعد احتجاج کرنا مناسب نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان