پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ سیّد عباس عراقچی کی ہفتے کو ٹیلی فون پر گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، خود مختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
اسرائیل نے اپنی سرحدوں میں سب سے بڑی تبدیلی 1967 میں کی تھی جب چھ روزہ جنگ کے نام سے مشہور تنازعے کے دوران اسرائیل نے جزیرہ نما سینائے، غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور بیشتر شامی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس قبضے نے اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے کے حُجم کو تین گنا بڑھا دیا تھا۔ اسرائیل نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں کو بھی ضم کر لیا تھا۔
ان اقدامات کو بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا، جب تک کہ امریکہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت اس معاملے پر اپنی سرکاری پوزیشن تبدیل نہیں کی اور وہ ایسا کرنے والی پہلی بڑی طاقت بن گئی۔
بین الاقوامی رائے عامہ مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون کال پر دونوں وزرا نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی مسلسل حالت زار پر تبادلہ خیال کیا۔
غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسے ’انتہائی پریشان کن‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی سرزمین فلسطینی عوام کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل اور منصفانہ آپشن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، خود مختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘
انہوں نے اس معاملے پر غور و خوض کے لیے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی او آئی سی اجلاس بلانے کے لیے پاکستان کی حمایت سے بھی آگاہ کیا۔
دونوں وزرا نے آنے والے دنوں میں ان پیش رفتوں پر قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔