دُنیا کی تاریخ میں لکھے گئے خطوط کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ زمانہ قدیم میں فرمانروا دوسرے ممالک کے بادشاہوں سے خط و کتابت کرتے تھے۔ افراد، احباب اور یہاں تک کہ اہلکار خطوط کو ذریعہ پیغام بناتے تھے۔
خط نویسی کو اردو اور انگریزی ادب میں باقاعدہ فن تحریر کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ خط لکھنے والے کی مہارت اور الفاظ کا چناؤ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ خط کا عنوان اور خطاب دراصل لکھنے والے کا ارادہ، محبت، نفرت اور مزاج طے کرتا ہے۔ خط کا انداز تخاطب، سلیقہ گفتگو، القابات سے مرصع اور مرقعہ تحریر لہجہ بن جاتا ہے اور پڑھنے والا تحریر کے انداز سے محبت، چاہت اور نفرت کا پیغام وصول کرتا ہے۔
پرانے زمانے میں خط کی تشریح، مطالب اور اس میں چھپے پیغام کو خاص انداز میں پرکھا جاتا تھا اور پھر اس سے مطالب نکال کر حکمران اپنے روابط طے کرتے اور محبت کرنے والے آنکھوں سے لگاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خط جدائی، ہجر، وصال کے اظہار کا بہترین ذریعہ اور جذبات اور احساسات کا حسین طریقہ قرار پاتا۔ بہرحال غالب کے ہاں خط ’آدھی ملاقات‘ ہے۔
اردو ادب میں غالب کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ یوں کہیے کہ غالب اگر شاعری میں پوجے جانے کا درجہ رکھتے ہیں تو نثر میں اُن کے خطوط اُنہیں دیوتا بنا دیتے ہیں۔
غالب کے خطوط میں اس دور کے حالات، اُن کے جذبات، شورش، آسودگی، ماحول، موسم، زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور یہاں تک کہ ذاتی اور ریاستی معاشی، معاشرتی، سماجی حالات کی جھلک نظر آتی ہے۔
غالب کے ہاں خط کی اہمیت جابجا شاعری میں بھی نظر آتی ہے یہاں تک کہ غالب بعض ایسے خط بھی تحریر کرتے جن کے جواب کی توقع ہی نہ تھی۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
سو بعض خط ایسے بھی لکھے جاتے ہیں جن کے جواب میں محبوب فقط انکار ہی بھیجتا ہے مگر یہ بھی بہت ہے کہ بھیجتا تو ہو، محبوب چاہے رخ موڑ بھی لے مگر خط تو پڑھتا ہے۔ سلام کا جواب نہ بھی دے اُس کے علم میں تو آ جاتا ہے کہ کوئی اُسے یاد کرتا ہے، اُسے پکارتا ہے، اُسے اُس قابل سمجھتا ہے کہ تحریر کے لیے ذہن و قلم اور دل یکسوئی کے ساتھ رکھتا ہے۔
خط کا جواب بے رخی سے بھی آئے، مُنہ موڑ بھی لے مگر مزاج پرسی تو ہو ہی جائے گی۔ ہونٹوں پہ نام تو آ ہی جائے گا۔ لمحہ بھر کے لیے ہی سہی مگر زیب گفتگو تو رہوں گا۔ سو خط کو محض خط نہ جانیے اس کی اہمیت لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان آرمی چیف کے نام دو خط تحریر کر چکے ہیں، پہلے خط کا جواب محلے کے راہگیروں کے ذریعے انکار کی صورت پہنچایا گیا، پہلا خط سلام مسنون کے بغیر تھا، خط میں القابات گویا موجود نہیں تھے تاہم پیغام ضرور تھا کہ آپ پہلے جیسے نہیں رہے عوام میں بھی اور خواص میں بھی لیکن ’میں ہوں ناں‘ کسی کام آ سکوں کیونکہ میں مقبول ہوں۔ اور یہ بھی اپنا کام کرتے رہیے یعنی سیاسی مداخلت کا صرف شخصی پالیسی پر نظر ثانی کیجئے۔
پہلے خط پہ تنقید کے بعد دوسرے خط میں خان صاحب نے اصلاح کی ہے، عوام اور فوج کے درمیان بڑھتے فاصلوں کی نشاندہی کی ہے، آئینی کردار نبھانے کا کہا ہے ورنہ دوسری صورت ’فالٹ لائنز‘ سے متنبہ بھی کیا ہے۔ خدا جانے اس خط کا جواب راہگیروں کے ذریعے آئے گا یا اُٹھائی گیروں کے ذریعے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔