پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے جیل میں زیر حراست ہیں اور اب 2025 کے اوائل ہی میں انہیں 190 ملین پاؤنڈز کیس میں 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں ہیں۔
احتساب عدالت کے جمعے کو سنائے گئے اس فیصلے پر فوری ردعمل میں عمران خان نے کہا کہ ایسے فیصلوں سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم کیے گئے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے ذریعے میڈیا پر عمران خان کے سامنے آنے والے بیان کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے کہا کہ ’میں کسی قسم کی ڈیل کے لیے تیار نہیں اور نہ کوئی ڈیل کروں گا۔ موجودہ ڈکٹیٹر نے اپنی ذات کے لیے آج کا فیصلہ سنایا۔ میری اہلیہ کے خلاف فیصلہ سنایا گیا، ان کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘
عمران خان نے کہا کہ ’آمریت میں ایسا ہی ہوتا ہے، جو سر نہ جھکائے اسے سزا (دی جائے)۔‘
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’1971 میں یحییٰ خان نے ملک کو نقصان پہنچایا، آج موجودہ ڈکٹیٹر نے وہی کیا۔ موجودہ ڈکٹیٹر نے آج کے فیصلے سے ثابت کیا کہ وہ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔‘
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے یہ فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا جو آج (17 جنوری 2025) کو سنایا گیا۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اگرچہ فوری ردعمل میں اس کیس کو سیاسی مقدمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اعلٰی عدالت میں اپیل دائر کی جائے گی۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ’میگا کرپشن‘ کا کیس تھا جس میں قانون کی مطابق سزا سنائی گئی۔
سپریم کورٹ کے وکیل مدثر خالد عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس سزا کے خلاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کے علاوہ سزا کی معطلی کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر دو درخواستیں دائر کی جاتی ہیں تو ’پہلے سزا معطلی کی درخواست سنی جائے گی اور اگر عدالت نے یہ سمجھا کہ یہ سزا جو ان کو دی گئی ہے اس میں کوئی قانونی جھول یا سقم ہے تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ آنے تک ذیلی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کو معطل کر دے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے بارے میں یہ تاثر رہا ہے کہ وہ ’بدعنوان‘ سیاست دان نہیں لیکن عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ اس کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف بدعنوانی ثابت ہوئی ہے۔
قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ’اس فیصلے سے عمران خان کی سیاسی ساکھ کو بھی دھچکا لگے گا کیوں کہ جس طرح انہیں صاف شفاف بنا کر پیش کیا جاتا رہا وہ درست نہیں۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ مقدمہ ایک سال سے زائد عرصہ تک چلا لیکن ان کے بقول تحریک انصاف کے وہ قائدین جو اب احتجاج کر رہے ہیں انہوں نے بطور گواہ عدالت میں پیش ہو کر اپنی جماعت قائد کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے گواہی نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے لیکن ان کی اپیلوں کو فرسٹ ان، فرسٹ آؤٹ کی بنیاد پر سنا جانا چاہیئے۔‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس سزا کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکے البتہ ان کے بقول اگر عمران خان، صدر پاکستان آصف زداری سے رحم اپیل کریں تو وہ اس پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
عمران خان کو یہ سزا ایسے وقت سنائی گئی جب ان کی جماعت اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔
واضح نہیں کہ اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔