سپریم کورٹ آف پاکستان میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران منگل کو جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ’نو مئی کا آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی؟ لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس کے اندر جانا تو سکیورٹی کی ناکامی ہے۔‘
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جج کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا۔‘
آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ عدالت نے گذشتہ سماعت پر وزارت دفاع کے وکیل کو منگل کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن خواجہ حارث دلائل مکمل نہ کر سکے۔ اب توقع ہے کہ بدھ کو دلائل مکمل ہوں گے۔
دیکھنا یہ ہے کن سویلین کا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
سماعت کے آغاز میں خواجہ حارث نے سپریم کورٹ لیاقت حسین کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لیاقت حسین کیس سول جرائم میں ملٹری کورٹ میں سویلین کے ٹرائل کا مقدمہ ہے۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ ’دیکھنا یہ ہے کن سویلین کا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟‘
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی کہ ریٹائر اہلکار سویلنز ہوتے ہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے کہا کہ ’آپ کا سارا انحصار ایف بی علی کیس پر ہے، ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے۔ موجودہ مقدمے میں کسی پر فوج کو کام سے روکنے پر اکسانے کا الزام ہے؟ آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو، آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کر رہے ہیں اس میں تو کوئی بھی آ سکتا ہے، کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟‘
فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ فوجی عدالت میں جائے گا’‘
وکیل وزارت دفاع نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایف بی علی کیس میں جن افراد پر مقدمہ چلایا گیا وہ ریٹائرڈ تھے۔ فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ فوجی عدالت میں جائے گا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’کسی فوجی کا چیک پوسٹ پر سویلین سے تنازع ہو تو کیا یہ بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا۔‘
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہو گا۔ سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہو رہا، 1967 سے قانون موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس حسن اظہر رضوی نے اس موقع پر کہا کہ ’ذہن میں رکھیں ایف بی علی کیس سول مارشل لا دور کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ خواجہ صاحب آپ وزارت دفاع کے وکیل ہیں ایک اہم سوال کا جواب دیں، کیا نو مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ نو مئی کو کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کور کمانڈر ہاؤس پہنچ گئے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9 مئی کے واقعہ میں کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’نو مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جا رہے تھے انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہا جا رہے ہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’ایف بی علی پر الزام ادارے کے اندر کچھ لوگوں سے ملی بھگت کا تھا، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے، ادارہ افراد پر ہی مشتمل ہوتا ہے اندر کے افراد سے تعلق کا بتائیں، خواجہ صاحب میرا آپ سے ایک ویسے تعلق ہے، محض اس تعلق کا ہونا مگر آپ کے کسی کیس میں ہماری ملی بھگت بھی نہیں بن جائے گا، جو جرم سرزد ہوا اس میں کیا ہم دونوں کا تعلق تھا یا نہیں وہ بتانا لازم ہوگا، یہ بہت اہم نکتہ ہے اس کو نوٹ کر لیں۔‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’اگر میں کسی دفاع کے ادارے سے جا کر بندوق چرا لوں تو اس کا بھی ٹرائل وہیں ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’بندوق چوری میں پھر اندر سے کیا تعلق ثابت ہو گا؟‘ خواجہ حارث نے کہا کہ ’جس بندوق سے سپاہی نے جنگ لڑنا تھی وہ چوری کر لینا اس کو کام سے روکنا ہی ہے۔‘
خواجہ حارث نے بتایا کہ نو مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں چلا۔ ’میں ملزمان کی تفصیل پیش کروں گا۔‘
عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔