یہ جاننا مشکل ہے کہ کرسمس پر نوعمر لڑکے لڑکیوں کو کیا تحفہ دیا جائے۔ اس عمر میں وہ اب کھلونوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اتنے بڑے ہیں کہ آپ انہیں وہ مشروب دیں جو آپ دیگر احباب کے لیے خریدتے ہیں لہٰذا، آپ محفوظ راستہ اختیار کرتے ہیں یعنی کچھ ایسا جو انہیں مصروف بھی رکھے اور جو ان کی نظر میں آپ کی جگہ بنا دے جو کہ ایک موبائل فون ہو سکتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو خطرہ لاحق ہے کیوں کہ ان سے متعلق قوانین بدل رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے بغیر وہ نیا آئی فون جو آپ نے خریدا ہے، ان کی نظر میں تقریباً بیکار ہے۔
امریکہ میں ٹک ٹاک کے مستقبل پر جاری بحث سے ہٹ کر، آسٹریلیا نے حال ہی میں 16 سال سے کم عمر کے بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت یہ پالیسی ’ایج ویریفیکیشن‘ (اے وی) ٹیکنالوجی کے ذریعے نافذ کرے گی۔
اس اقدام نے نہ صرف آن لائن تحفظ، رازداری اور آزادیوں کے توازن پر بحث کو چھیڑ دیا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا ایسی آزادیوں کو محدود کیا جانا چاہیے جن کے نتیجے میں ایسی تدابیر سامنے آئیں جو کارگر نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آسٹریلیا کے سیاست دانوں کی اس بارے میں نیت اچھی ہیں لیکن جس طریقے سے انہوں نے بچوں کے تحفظ کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے اس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
یہ دلچسپ ہے کہ آسٹریلیا نے اس سے پہلے بالغوں کے مواد (پورن وغیرہ) کی ویب سائٹس تک رسائی کے لیے عمر کی سخت ضوابط لاگو کرنے کا جائزہ لیا تھا لیکن اس اقدام کو یہ جان کر ترک کر دیا گیا کہ اس سے فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہوگا۔ برطانیہ کو بھی آسٹریلیا کی اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔
وہ اے وی ٹیکنالوجی جو آسٹریلیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاگو کی جا رہی ہے، برطانیہ میں آن لائن سیفٹی ایکٹ کے تحت ویب سائٹس پر بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ یہ ایک متنازع قانون سازی ہے جو انٹرنیٹ پلیٹ فارمز اور نگران اداروں کو مواد پر قابو پانے کے وسیع اختیارات دیتی ہے۔
تاہم بچوں کے (سوشل میڈیا کے حوالے سے) تحفظ کی کوششیں ایسے ہزاروں ویب سائٹس پر انحصار نہیں کر سکتیں جو عالمی سطح پر کنٹرول نافذ کریں اور جو شروع سے ہی ناقص ہیں۔ یہ رازداری، بنیادی حقوق اور تحفظ کو ایک ایسے خواب کے لیے قربان کرنا مضحکہ خیز ہے جو حاصل کرنا ہی ممکن نہ ہو۔
جیسا کہ یورپ بھر کے 60 سے زائد غیر سرکاری اداروں اور پرائیویسی کے ماہرین کے کھلے خط میں نمایاں کیا گیا ہے کہ عمر کی تصدیق کے لیے اے وی ٹیکنالوجی کا نفاذ بنیادی حقوق کو سنگین خطرات سے دوچار کرتا ہے اور غیر ارادی نتائج کا سبب ہے۔ تمام صارفین سے ان کی عمر کے ثبوت کا مطالبہ رازداری کے حقوق کو مجروح کرتا ہے اور حساس ڈیٹا، جیسے کہ بایومیٹرک سکین، سرکاری شناختی کارڈز کی کاپیاں یا دیگر حساس مواد کو آن لائن اپ لوڈ کرنے کا پابند بناتا ہے۔
یہ سوچ کر خود کو دھوکہ نہ دیں کہ ویب سائٹس اس ذاتی اور حساس ڈیٹا کو طویل مدت تک محفوظ نہیں رکھیں گی کیوں کہ اگر حکومت اس پابندی کے نفاذ پر زور دیتی ہے تو ایسی ویب سائٹس کو یہ ثابت کرنے کے لیے ڈیٹا درکار ہوگا کہ وہ عمر کی تصدیق کے معاملے میں لاپروائی کے مرتکب نہیں ہوئے۔
ویب سائٹس پر عمر کی تصدیق کے لیے اے ویٹیکنالوجی کا استعمال نئے سکیورٹی خطرات بھی پیدا کرتا ہے۔ چونکہ ویب سائٹس کو بہت زیادہ ذاتی ڈیٹا ذخیرہ کرنا پڑے گا تو ایسی صورت میں وہ ہیکرز کے لیے پُرکشش ہدف بن جائیں گی۔ اگر ایسی کوئی ڈیٹا کی چوری ہوتی ہے تو بالغوں اور بچوں دونوں کا حساس ڈیٹا منظر عام پر آ جائے گا کیونکہ ہر صارف کو اپنی عمر ثابت کرنے کے لیے ذاتی معلومات فراہم کرنا ہوں گی جس سے ہر کسی کو آن لائن استحصال کا زیادہ خطرہ ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانیہ کی حکومت کو ڈیوائس لیول پر ایسے تحفظات کو ترجیح دینی چاہیے جہاں ڈیٹا اکٹھا کیے بغیر نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ والدین کے مضبوط کنٹرول، ڈیوائس لیول فلٹرنگ اور ڈیجیٹل مسائل کے حل کی صلاحیت کے بارے میں بہتر تعلیم جیسے اقدامات پر توجہ مرکوز کر کے بچوں کو آن لائن خطرات سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے حل خاندانوں کو اختیار دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ پلیٹ فارمز یا سیاست دانوں کو ڈیجیٹل نگران کا کردار ادا کرنا پڑے۔
جب کہ تحفظ کے نام پر رازداری کی قربانی دی جا رہی ہے تو یہ تحفظ ہی حاصل ہونا مشکل ہو جائے گا۔ عمر کی تصدیق کرنے والی ٹیکنالوجیز کو نظرانداز کرنا آسان ہے خاص طور پر ٹیکنالوجی سے واقف نوجوان جو جعلی شناخت، وی پی اینز اور شیئرڈ لاگ انز استعمال کرنا جانتے ہیں۔
عمر کی تصدیق میں ناکام رہنے سے مرکزی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے باہر نکالے گئے ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوان غیر منظم ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جہاں خطرات زیادہ ہیں۔
بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے خبردار کرتے ہیں کہ عمر کی تصدیق کی پابندی نوجوان صارفین کو انٹرنیٹ کے پوشیدہ گوشوں میں دھکیل سکتی ہے، جہاں تحفظ کمزور یا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور وہ ایسے مواد دیکھ سکتے ہیں جو ان ویب سائٹس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہیں جو برطانوی ضوابط کے دائرے میں آتے ہیں۔
برطانیہ کے لیے پیغام واضح ہے کہ وہ خبردار رہیں۔ بچوں کو آن لائن نقصان دہ مواد سے بچانے کی نیت درست ہے لیکن اس کے نفاذ اور اس سے وابستہ قیمت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
یاد رکھیں ہم کسی 60 سالہ شخص اور 10 سالہ بچے کے درمیان فرق کرنے کی بات نہیں کر رہے، برطانیہ کے قانون کے تحت ویب سائٹس کو 17 سالہ نوجوان کو 18 سالہ ظاہر کرنے سے روکنا ہوگا۔ اس سے زیادہ تر شہریوں کو بھی ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی کے خطرات لاحق ہو جائیں گے جو یہ ثابت کرنے کے پابند ہوں گے کہ وہ 18 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔
ڈیوائس لیول پروٹیکشن کسی بھی صارف کے حساس ڈیٹا کو مرکزی دھارے میں شامل ہرنے کے نقصانات سے بھی بچاتے ہیں۔ ہر کسی کی ذاتی معلومات کو منظر عام پر لانے کے خطرے سے دوچار کرنے کے بجائے یہ ٹولز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ حفاظتی اقدامات مقامی طور پر اور احتیاط سے لاگو کیے جائیں اور کوئی بھی غیر ضروری طور پر حساس معلومات کو سٹور نہ کرے۔ یہ طریقہ آن لائن تحفظ، رازداری اور آزادی اظہار کے بنیادی حقوق کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔
برطانیہ نے بجا طور پر ڈیجیٹل دور میں بچوں کی حفاظت کے لیے بہت زیادہ توقعات رکھی ہیں لیکن اس کا نفاذ محتاط اور درست طریقے سے ہونا چاہیے۔ پالیسی سازوں کو ماہرین، سول سوسائٹی اور آسٹریلیا جیسے بین الاقوامی مثالوں سے ملنے والے سبق پر دھیان دینا چاہیے۔ عمر کی تصدیق کو مسئلے کا مکمل حل سمجھنا سیاسی ضروریات کو تو پورا کر سکتا ہے لیکن یہ بچوں کو زیادہ خطرات میں ڈال کر حقیقی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
برطانیہ کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر عالمی معیار قائم کرے جو بچوں کو آن لائن تحفظ فراہم کرے۔
مداخلت اور غیر آزمودہ اے وی ٹولز کے بجائے برطانیہ سسٹمیٹک پروٹیکشن پر توجہ مرکوز کرکے آسٹریلیا کی غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتا ہے اور سب کے لیے ایک محفوظ اور آزاد ڈیجیٹل مستقبل یقینی بنا سکتا ہے۔ ایسا مستقبل جہاں عمر کی تصدیق ڈیوائس لیول پر ہو اور ڈیوائس کے فعال ہوتے ہی یہ نافذ ہو جائے، نہ کہ ایک ایک ویب سائٹ پر الگ الگ بنیادوں پر اپنائی جائے۔
© The Independent