کراچی کے تاریخی موہٹہ پیلس میں منعقد ہونے والے فیشن شو میں پاکستان کے چار نامور فیشن ڈیزائنرز نے موسم خزاں و سرما کی مناسبت سے ملبوسات پیش کیے، جب کہ ایک ڈیزائنر نے زیوارات کی نمائش بھی کی۔
کرونا کی عالمی وبا کے بعد سے پاکستان میں فیشن شوز کا سلسلہ جیسے رک سا گیا تھا۔ ایسے میں اس فیشن شو سے امید کی جا رہی ہے کہ یہ فیشن کی صنعت کے احیا میں کردار ادا کرے گا۔
جن فیشن ڈیزائنرز نے شو میں اپنے ملبوسات کی نمائش کی ان میں دیپک پروانی، حسن شہریار یاسین، منیب نواز اور ہاؤس آف امیر عدنان کی جانب سے پریشے عدنان تھے، جب کہ علی جویری جیولرز کی حرا جویری نے زیوارات کے نئے انداز پیش کیے۔
یہ تمام ملبوسات اور زیوارات اب آن لائن بھی دستیاب ہیں، جنہیں پاکستان سے باہر رہنے والے بھی خرید سکتے ہیں۔
شو کی آرگنائزر فریحہ الطاف نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معیشت کی بہتری کے لیے فیشن کو برآمد کرنے کی حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی فیشن ہر لحاظ سے بہترین ہے اگر یہ شو ہی دیکھا جائے تو اس میں ہی کتنی جدت ہے۔‘
دیپک پروانی نے اپنی کلیکشن جے پور سے متاثر ہو کر بنائی، جس میں گلابی رنگ کا استعمال نمایاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’موہٹہ پیلس کا بھی وہیں سے ایک تعلق ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معروف ڈیزائنر منیب نواز کا کہنا تھا کہ وہ لباس بناتے ہوئے بہت زیادہ نہیں سوچتے کہ یہ فارمل ہے یا کیژول۔ ’میری خواہش تھی کہ میں اپنی مرضی سے کپڑے بناؤں۔ اپنے ذہن اور تصور کی مناسبت سے ہی کپڑۓ بناتا ہوں میں۔ کسی اور کی خواہش پر نہیں جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب نظریے میں وسعت دینے کا وقت ہے، شلوار قمیض کے ساتھ کوٹ بھی پہنا جا سکتا ہے کیونکہ دنیا اب بہت آگے جا چکی ہے اور ہمیں اب تنگ نظری چھوڑنا ہو گی۔
علی جویری جیولرز کی حرا جویری نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کیونکہ پاکستان میں شادیوں کا موسم چل رہا ہے اس لیے وہ عروسی زیورات پیش کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ مشرقی مارکیٹ ہے لیکن وہ مغرب کی جانب بھی دیکھنا چاہتے ہیں، کہ ان کے زیورات بالز میں بھی پہنے جا سکیں۔ صرف شادیوں ہی پر نہیں۔
’ہم کم پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بھاری زیوارات ہی بناتے ہیں کیونکہ وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔‘