تحقیق کرنے والے حنوط ممی سونگھ کر کیا بتاتے ہیں؟

محققین کے مطابق شیشے کے پیچھے رکھی ممی کا مشاہدہ کرنا ہمارے اس تجربے کو محدود رکھتا ہے کیوں کہ ہم اسے سونگھ نہیں سکتے۔ ہم ممی بنانے کے عمل کو تجرباتی طور پر محسوس نہیں سکتے حالانکہ قدیم دنیا کو سمجھتے اور اس سے جڑنے کا یہی طریقہ ممکن ہے۔

کولمبیا کے قصبے سان برنارڈو میں مقامی رہائشی جوز آرکیمیڈیس کاسترو کے مقبرے میں ممیوں کے عجائب گھر میں 30 سال قبل فوت ہونے والی اپنی والدہ کی ممی کے سامنے موجود ہیں (راؤل آربولیڈا / اے ایف پی)

ڈراؤنی فلمیں بھول جائیں۔ محققین کے مطابق مصر میں حنوط شدہ قدیم لاشوں کی خوشبو حیرت انگیز طور پر خوشگوار ہوتی ہے۔

ایک نئی تحقیق جو سائنسی تجزیے اور سونگھنے کی انسانی حس کو یکجا کرتی ہے، سے ظاہر ہوتا ہے کہ اچھی طرح محفوظ کی گئی ممیوں سے خاصی خوشگوار مہک آتی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ برائے سسٹین ایبل ہیریٹیج کی تحقیقاتی ڈائریکٹر سسیلیا بیم ببری نے کہا کہ ’فلموں اور کتابوں میں، جو لوگ حنوط شدہ لاشوں کی خوشبو سونگھتے ہیں ان کے ساتھ خوفناک واقعات پیش آتے ہی۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کی خوشبو درحقیقت خوشگوار ہے۔‘

یہ تحقیق، جو جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی میں شائع ہوئی، اس میں قاہرہ کے مصری عجائب گھر میں رکھی گئی نو ممیوں کی خوشبو کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے بعض 5000 سال تک قدیم تھیں۔

متوقع طور پر ناگوار بدبو کی بجائے تحقیق کے شرکا نے ممیوں کی خوشبو کو ’لکڑی جیسی‘، ’مصالحے دار‘ اور ’میٹھی‘ قرار دیا۔ پھولوں جیسی ہلکی سی مہک بھی محسوس ہوئی۔

محققین کا ماننا ہے کہ یہ خوشگوار مہک صنوبر اور دیودار کی گوند سے آ سکتی ہے جو حنوط کرنے کے دوران استعمال کی جاتی تھی۔

اس تحقیق کی شریک مصنف سسیلیا بیم ببری کے مطابق ممیوں کی خوشبو کو سائنسی انداز میں جانچنے کا مقصد ایک ایسے موضوع کو سمجھنا تھا جو عوام اور محققین دونوں کے لیے طویل عرصے سے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین، مورخین، کنزرویٹر حتیٰ کہ کہانیاں لکھنے والے مصنفین بھی اس موضوع پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور اس کی معقول وجہ ہے۔

ممی بنانے کے عمل میں خوشبو ایک اہم عنصر تھی کیوں کہ تیل، موم اور مرہم استعمال کیے جاتے تھے تاکہ جسم اور روح کو اگلی زندگی کے لیے محفوظ رکھا جا سکے۔

یہ عمل زیادہ تر فرعونوں اور اشرافیہ کے لیے مخصوص تھا کیوں کہ خوشگوار مہک کو پاکیزگی اور دیوتاؤں سے جوڑا جاتا تھا جب کہ ناگوار بدبو کو خرابی اور زوال کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

خود ممیوں کے نمونے لیے بغیر، جو مداخلت پر مبنی طریقہ ہوتا، یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) اور سلووینیا کی یونیورسٹی آف لبلجانا کے محققین اس بات کا تجزیہ کرنے میں کامیاب رہے کہ خوشبو کا ذریعہ قدیم اشیا تھیں یا یہ کسی کیڑے مار دوا یا محفوظ بنانے والے کسی دوسرے مواد سے آ رہی تھی یا پھر پھپھوندی، بیکٹیریا یا دیگر جراثیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی کا نتیجہ تھی۔

یونیورسٹی آف لبلجانا کے کیمسٹری پروفیسر ماتیا شترلیچ کہتے ہیں کہ ’ہمیں کافی فکر تھی کہ ہمیں بوسیدہ اجسام کی کوئی جھلک یا مہک محسوس ہو سکتی ہے، لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔

’ہمیں خاص طور پر اس بات کی پریشانی تھی کہ کہیں ہمیں جراثیمی بگاڑ کے آثار نہ ملیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا، جس کا مطلب ہے کہ اس عجائب گھر کا ماحول تحفظ کے لحاظ سے واقعی بہت اچھا ہے۔‘

شترلیچ کے مطابق: ’تکنیکی آلات کے ذریعے تابوتوں سے خارج ہونے والے ہوا کے مالیکیولز کو جانچ کر، بغیر ممیوں کو چھوئے ان کے محفوظ کی حالت معلوم کرنا بالکل ’مقدس پیالہ‘ تلاش کرنے جیسا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عمل ہمیں ممکنہ طور پر یہ بتاتا ہے کہ کوئی ممی کس سماجی طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور اس طرح یہ محفوظ کیے گئے جسم کے بارے میں بہت سی ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو نہ صرف کنزرویٹروں بلکہ منتظمین اور ماہرین آثار قدیمہ کے لیے بھی اہم ہے۔‘

’ہمارا ماننا ہے کہ یہ طریقہ کار عجائب گھر میں موجود دیگر اقسام کی اشیا کے لیے بھی بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔‘

باربرا ہبر، جو جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف جیو اینتھروپولوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل محقق ہیں اور اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، نے کہا کہ یہ نتائج ان مرکبات کے بارے میں انتہائی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں جو ممی بنائی گئی باقیات کو محفوظ رکھنے یا نقصان پہنچانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ معلومات قدیم اجسام کو آئندہ نسلوں کے لیے بہتر طریقے سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

باربرا ہبر کے بقول: ’تاہم یہ تحقیق ایک اہم چیلنج کو بھی اجاگر کرتی ہے یعنی آج جو خوشبوئیں محسوس کی جا رہی ہیں ضروری نہیں کہ وہی ہوں جو ممی تیار کرتے وقت موجود تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہوبر نے کہا کہ ’ہزاروں سالوں میں، بخارات بننے، تکسید، اور یہاں تک کہ ذخیرہ کرنے کے طریقوں نے اصل خوشبو کی ترکیب کو نمایاں طور پر بدل دیا۔‘

دو سال قبل ہبر نے ایک تحقیق کی قیادت کی جس میں ایک ایسے مرتبان کے باقیات کا تجزیہ کیا گیا، جس میں سماجی مرتبہ رکھنے والی کسی خاتون کے ممی شدہ اعضا رکھے گئے تھے۔ اس تحقیق کا مقصد محفوظ بنانے کے لیے استعمال ہونے والے اجزا، ان کے ذرائع، اور ان سے ظاہر ہونے والے تجارتی راستوں کا پتہ لگانا تھا۔

بعد ازاں، ہبر نے ایک عطر ساز کے ساتھ مل کر ’سنٹ آف ایٹرنیٹی‘ کے نام سے ایک خوشبو تخلیق کی، جو ممی بنانے کے دوران استعمال ہونے والے اجزا کی خیالی شکل تھی۔ اس خوشبو کو ڈنمارک کے موسگارڈ میوزیم کی نمائش میں پیش کیا گیا۔

تازہ تحقیق کرنے والے محققین بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دریافتوں کی بنیاد پر ’خوشبوؤں کا مجموعہ‘تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ مصنوعی طور پر ان مہکوں کو دوبارہ تخلیق کیا جا سکے اور مستقبل میں عجائب گھر آنے والوں کے تجربے کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔

سسیلیا بیم ببری نے کہا کہ ’عجائب گھروں کو اکثر ’سفید ڈبے‘ کہا جاتا ہے، جہاں آپ کو صرف پڑھنے، دیکھنے اور ہر چیز کو فاصلے سے آنکھوں کے ذریعے پرکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

’شیشے کے کیس میں رکھے ممی شدہ اجسام کا مشاہدہ کرنا اس تجربے کو محدود کر دیتا ہے کیوں کہ ہم انہیں سونگھ نہیں سکتے۔ ہم ممی بنانے کے عمل کو تجرباتی طور پر محسوس نہیں کر پاتے جب کہ یہی ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کو سمجھتے اور اس سے جڑتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا