سائنس دانوں کا خیال ہے کہ تقریباً تین ہزار سال پہلے ایک قدیم مصری ممی، جو سیاہ وگ پہنے اور چلاتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملی، کی موت ممکنہ طور پر درد سے چیختے ہوئے ہوئی تھی۔
’چیختی ہوئی خاتون‘ کے نام سے مشہور اس ممی کے درد کی دائمی کیفیت نے 90 سال سے ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے باقیات کا تجزیہ کرنے پر، ماہرین آثار قدیمہ کا اب خیال ہے کہ وہ خاتون تکلیف میں روتے ہوئے چل بسی تھیں اور ان کی موت کے فوراً بعد ان کے پٹھے جلد ہی سخت ہو کر جم گئے، جس سے ان کا دکھ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ خاتون کی موت کا سبب، جو کہ ممکنہ طور پر تشدد ہو سکتا ہے، ایک معمہ ہے۔
مصر کی قاہرہ یونیورسٹی کے کاسر العینی ہسپتال میں ریڈیولوجی کی پروفیسر سحر سلیم نے چیختی ہوئی خاتون کو زندگی کے آخری لمحات کو محفوظ رکھنے والے ’ٹرو ٹائم کیپسول‘ کے طور پر بیان کیا۔
ان کا خیال ہے کہ موت کے فوراً بعد یہ جسم ایک نادر تجربے سے گزرا جسے کیڈاورک سپازم کہتے ہیں۔ یہ حالت پٹھوں کو اس پوزیشن میں منجمد کر دیتی ہے جس میں کوئی شخص موت کے وقت تھا۔ کیڈاورک سپازم کا تعلق عام طور پر شدید جسمانی حالات اور شدید جذبات کے تحت تشدد کی وجہ سے موت سے ہوتا ہے۔
پروفیسر سحر سلیم نے کہا: ’اس مطالعے میں ممی کے چیختے ہوئے چہرے کے تاثر کو ایک کیڈاورک سپازم کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ خاتون کی موت تکلیف یا درد سے روتے ہوئے ہوئی تھی۔‘
یہ ممی لکسور میں ایک قدیم مقام پر سینیٹ نامی ایک مشہور معمار کے مقبرے کے نیچے ملی تھی، جو کہ ان کی والدہ ہات نفیئر کی قبر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس کو نکالنے کے عمل کی قیادت نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم نے کی تھی۔
ایک لکڑی کے تابوت میں، دراز ٹانگوں اور رانوں کے اوپر رکھے دونوں بازوؤں کے ساتھ، چیختی ہوئی خاتون کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر دو سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں تھیں اور سر پر کھجور کے ریشوں سے بنی ایک سیاہ وگ تھی، جسے میگنیٹائٹ اور البائٹ کرسٹل کے ساتھ کسی خاص عمل سے گزارا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیے سے پتہ چلا کہ اس کے قدرتی بالوں کو مںہدی اور مخصوص صنوبر سے رنگا گیا تھا لیکن محققین کا خیال ہے کہ مصریوں کو سیاہ بال پسند تھے کیونکہ یہ جوانی کی علامت تھے۔
محققین کا اندازہ ہے کہ چیختی ہوئی خاتون کا قد تقریباً پانچ فٹ ہوگا اور 48 سال کی عمر میں وہ چل بسی ہوں گی۔ سکینز سے پتہ چلا کہ اپنی موت سے پہلے ان کے بہت سے دانت ٹوٹ چکے تھے اور وہ ریڑھ کی ہڈی میں ہلکے سے آرتھرائٹس کا شکار تھیں۔
پروفیسر سحر سلیم نے کہا کہ کلاسیکی ممیفیکیشن کے طریقوں کے برعکس، جہاں عام طور پر اعضا کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے، اس کا دماغ، پھیپھڑے، جگر، تلی، گردے اور آنتیں اب بھی موجود تھیں۔
محققین نے کہا کہ ان کی جلد کی ایک معائنے سے پتہ چلا کہ انہیں صنوبر اور لوبان کی مدد سے محفوظ کیا گیا تھا، یہ مہنگی اشیا ہیں جنہیں پڑوسی ممالک سے مصر میں درآمد کرنا پڑتا تھا۔
پروفیسر سحر سلیم نے کہا کہ ’جریدے فرنٹیرز ان میڈیسن‘ میں شائع ہونے والے نتائج اس نظریے کو چیلنج کرتے ہیں کہ چیختی ہوئی خاتون کا تکلیف کا تاثر خراب ممیفیکیشن کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے کہا: ’یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں مہنگے، درآمد شدہ مواد کے ساتھ محفوظ کیا گیا تھا۔ یہ اور ممی کی اچھی طرح سے محفوظ ظاہری شکل اس روایتی عقیدے کا تضاد ہے کہ ان کے اندرونی اعضا کو نکالنے میں ناکامی کا مطلب خراب ممیفیکیشن تھا۔‘
© The Independent